بسم اللہ الرحمن الرحیم
انجمنِ ترقّئ اُردو کی تاریخ برّصغیر پاک و ہند میں خلوص، لگن، جدّوجہد اور سعی و عمل کی تاریخ ہے۔ سرسیّد احمد خاں کے عہد میں مسلمان ۱۸۵۷ء کی ہزیمت سے سہمے ہوئے تھے۔ ہندوؤں کو بھاری اکثریت کے ساتھ ساتھ فرنگی حکمرانوں کی سرپرستی بھی حاصل تھی۔ چناں چہ انھوں نے اس سے فائدہ اٹھاکر یہ آواز بلند کی کہ عدالتوں کی ساری کارروائی ہندی زبان میں ہونا چاہیے۔ اس نعرے نے ایک تحریک کی شکل اختیار کرلی اور اس سلسلے میں قوّت اور اکثریت کے دباؤ دونوں سے کام لیاگیا۔ سرسیّد کو اس تحریک کے نقصان دہ اثرات کا اندازہ ہوگیا تھا۔ انھوں نے یہ صورتِ حال دیکھ کر اپنے آپ کو صرف مسلمانوں کے قومی کاموں کے لیے وقف کرلیا اور دو قومی نظریے کی ترویج و اشاعت کی۔
سرسیّد نے اپنی زندگی کے آخری لمحے تک بڑے زور و شور سے اردو زبان کی مدافعت جاری رکھی۔ اُن کے بعد اُن کے لائق جانشینوں نواب محسن الملک اور نواب وقار الملک نے یہ خدمت انجام دی۔سرسیّد نے مسلمانوں کی تعلیمی ترقّی کے لیے ایک ادارہ ’’مسلم ایجوکیشنل کانفرنس‘‘ کے نام سے قائم کیا تھا۔ مسلم ایجوکیشنل کے سالانہ جلسے ہماری قومی اور تعلیمی تاریخ میں اہمیت کے حامل ہیں۔ ترقّئ اردو بھی مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کا ایک مقصد تھا جس کے حوالے سے کام ہوتا رہتا تھا۔ مگر یہ بات شدّت کے ساتھ محسوس کی جا رہی تھی کہ ترقّئ اردو اور اردو کی مدافعت کے لیے ایک ہمہ جہت فعّال اور مستعد ادارے کی ضرورت ہے۔
۱۹۰۳ء میں مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کا سالانہ جلسہ دلّی میں منعقد ہوا۔ اس جلسے میں کانفرنس کے مختلف شعبے قائم کیے گئے۔ اِنھیں شعبوں میں ایک شعبہ ترقّئ اردو کا بھی تھا۔ یہی شعبہ’ انجمنِ ترقّئ اُردو‘کی بنیاد تھا۔ درج ذیل حضرات انجمن کے عہدیدار نامزد ہوئے:
صدر پروفیسر ٹامس آرنلڈ (علی گڑھ کالج کے پرنسپل تھے، اس وقت جامعہ نہیں بنی تھی)
نائب صدر شمس العلماء مولوی نذیر احمد
نائب صدر شمس العلماء مولانا الطاف حسین حالی
نائب صدر شمس العلماء مولوی ذکاء اللہ
سیکریٹری شمس العلماء مولانا محمد شبلی نعمانی
انجمن کا ابتدائی دور بڑی جدّوجہد اور کشمکش کا دور تھا۔ کسی ادارے کو کامیاب اور روایت ساز بنانے کے لیے غیرمعمولی محنت کرنا پڑتی ہے۔ انجمن کے عہدے داروں نے بڑی محنت کی اور انجمن کو ایک حیثیت دی لیکن دو تین برسوں کے وقفے سے یکے بعد دیگرے تین سیکریٹری مقرر ہوئے اس وجہ سے کام کسی حد تک متاثر ہوا مولانا شبلی کو اپنی مصروفیات کی وجہ سے مستعفی ہونا پڑا۔ نواب صدر یار جنگ نے اُن کا کام سنبھالا۔ وہ بھی اپنی دوسری انتظامی مصروفیات کی وجہ سے مستعفی ہوگئے۔ مولوی عزیز مرزا سیکریٹری مقرر ہوئے۔ وہ بہت فعّال اور کارگزار انسان تھے۔ بڑے ذوق و شوق اور محنت سے کام شروع کیا لیکن ۱۹۱۱ء میں اُن کا انتقال ہوگیا اور انجمن ایک مستعد سیکریٹری سے محروم ہوگئی۔
۱۹۱۲ء میں ایجوکیشنل کانفرنس کا اجلاس پھر دلّی میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں انجمن کی کارگزاری اور حالات پر بھی غور ہوا ۔ یہ طے ہوا کہ مولوی عبدالحق (اس وقت صدر مہتمم تعلیمات اورنگ آباد) کو سیکریٹری مقرر کیا جائے۔ مولوی صاحب سرسیّد کے تربیت یافتہ تھے محسن الملک کے ساتھ کام کرچکے تھے۔ مولانا حالی کے عقیدت مند اور علمی، ادبی کاموں سے دلچسپی رکھتے تھے۔ مولوی صاحب انجمن کے سیکریٹری مقرر ہوگئے۔ انجمن کو اپنے ساتھ اورنگ آباد لے آئے اور رفتہ رفتہ اس صدی میں اردو زبان و ادب کی ترقّی کی سب سے بڑی انجمن کا سب سے اہم حوالہ بن گئے۔
مولوی عبدالحق انجمنِ ترقّئ اُردو کے سیکریٹری ہی نہیں مجسّم ترقّی اردو تھے۔ اُن کا سونا جاگنا، اُٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا، پڑھنا لکھنا، آنا جانا، دوستی، تعلقات، روپیہ پیسہ غرض کہ سب کچھ انجمن کے لیے تھا۔ ساری تنخواہ انجمن کی نذر کردیتے (بعد میں پینشن بھی انجمن پر ہی خرچ کرتے رہے) لکھنے پڑھنے سے جو آمدنی ہوتی وہ بھی انجمن کے کھاتے میں جاتی۔ زندہ رہے تو اردو کے لیے اور یہ بھی ریکارڈ پر ہے کہ کراچی کے جناح اسپتال میں بسترمرگ پر تھے مگر لیٹے لیٹے ’’قاموس الکتب‘‘ (جلد اوّل) کا معرکہ آرا مقدمہ لکھ دیا۔
مولوی عبدالحق نے جنھیں انجمن کے حوالے اور اردو کی خدمت سے خواص و عوام نے ’’بابائے اردو‘‘ کا خطاب دیا انجمن کو غیرمعمولی ترقّی دی۔ اس کی خدمات کا دائرہ وسیع کیا۔ وقت کے جدید تقاضوں کے مطابق علمی اور ادبی منصوبے مرتّب کیے اور ان پر بڑی دل جمعی سے کام کیا انجمن کے کاموں کی ایسی شہرت ہوئی کہ نظام دکن میر عثمان علی خاں نے ایک ذاتی فرمان کے ذریعے سے اس کی سرپرستی منظور کی اور اس کے لیے مستقل امداد جاری کردی۔
انجمن نے ۱۹۴۷ء تک جو خدمات انجام دیں اُن کا ایک اجمالی خاکہ یہ ہے:
(۱) ہندی اردو تنازع اور انجمن
برطانوی اقتدار قائم ہونے کے بعد برصغیر کے بیشتر کھلے طور پر متعصب اور بعض متعصب نہ ظاہر ہونے والے ہندو رہنماؤں نے اس بات پر پورا زور صرف کیا تھا کہ دیوناگری رسم الخط الفاظ اور ہندی زبان کو سرکاری حیثیت حاصل ہو جائے اور ہندی کو برّصغیر کی واحد مشترک زبان تسلیم کرلیا جائے۔ ’’اردو کو جو قرآنی حروف میں لکھی جاتی ہے۔‘‘ یک قلم خارج کردیا جائے۔ انڈین نیشنل کانگریس کے بااثر عناصر اور دوسری ہندو جماعتوں نے ہندی کو رواج دینے کی بڑی کوشش کی اور اس سلسلے میں بڑی پیچیدہ، چالاک سیاست سے کام لیا لیکن انجمن اور بابائے اردو کی اَن تھک محنت، حوصلے اور مقابلے کی وجہ سے انھیں کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ انجمن نے ہندی اردو تنازعے میں اردو زبان کی سلامتی اور تحفّظ کے لیے بڑی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ انجمن کے یہ کارنامے تحریکِ پاکستان اور قومی تاریخ کا اہم حصّہ ہیں۔
(۲) اردو زبان کی ترویج و اشاعت۔ مخالفتوں اور مشکلات کا دَور
انجمن نے ایک مرحلہ وار پروگرام کے تحت جنوبی ایشیا کے اُن علاقوں میں جہاں اردو کا رواج برائے نام تھا، اردو کو رواج دیا۔ اس مقصد کے لیے اسکول اور شبینہ مدارس قائم کیے، تعلیم بالغان کا انتظام کیا، چھوٹا ناگپور کے علاقے میں جو مراکز قائم کیے گئے تھے انھیں بڑی کامیابی ہوئی۔ جن علاقوں کے اسکولوں میں اردو اساتذہ کی کمی تھی وہاں انجمن نے اردو اساتذہ کے تقرّر کا بندوبست کیا، درسی کتابیں شائع کیں، ناقص درسی کتابوں کی درستی کے لیے بھرپور جدّوجہد کی۔ بابائے اردو نے سارے ملک کے متعدد دورے کیے۔ انجمن کے معاونوں اور حامیانِ اردو کا ایک بہت بڑا حلقہ مرتّب کیا جس میں ملک کے تمام مقتدر اہلِ علم شامل تھے۔ بے شمار رضاکاروں نے شہر شہر قریہ قریہ شاخیں اور ذیلی شاخیں کھولیں، باقاعدگی اور تواتر کے ساتھ بڑے چھوٹے مذاکرے، جلسے اور منصوبے منعقد و مرتّب ہونے لگے...
(۳) اصطلاحاتِ علمیہ اور انگریزی اردو ڈکشنری
اردو زبان کو ہر سطح پر ذریعہ تعلیم بنانے اور علوم و فنون کے جدید سرمائے کو اردو زبان میں منتقل کرنے کے لیے انجمن نے اصطلاحاتِ علمیہ کے ترجموں کا کام کیا اور ترجموں میں سہولت پیدا کرنے کی غرض سے ایک’ اسٹینڈرڈ انگریزی اردو ڈکشنری‘ مرتّب کی۔ یہ کام بابائے اردو کی سرکردگی میں ماہرین کی ایک جماعت نے انجام دیا۔ انجمن کی یہ ڈکشنری اب تک متعدد بار شائع ہوچکی ہے۔ بعض علوم کی اصطلاحات کی فرہنگیں علاحدہ سے بھی شائع کی گئیں۔ انجمن کے اس کام سے اصطلاحات کے ترجموں کی طرف توجہ عام ہوئی۔
اسی ذخیرے سے اسّی ہزار اصطلاحات اردو بورڈ (اب اردو سائنس بورڈ لاہور) کو ہدیہ کی گئیں جو اس کے منصوبے میں شامل ہیں۔
(۴) علمی و ادبی کتابوں کے تراجم
انجمن نے دنیا کی اہم علمی اور ادبی کتابوں کو اردو میں منتقل کرنے کے لیے ایک مرحلہ وار پروگرام کے تحت کام شروع کیا اور ایسی بے شمار کتابوں کے ترجمے شائع کیے۔ جنھیں اُمہات الکتب میں شمار کیا جاتا ہے۔ بعض اہم ترجمے یہ ہیں:
نمبر نام مصنّف
(۱) تاریخ تمدّن (سر ہینری طامس بکل۔ ترجمہ: منشی محمد احد علی)
(۲) تاریخ ملل قدیم (سینویس۔ ترجمہ: سیّد محمود اعظم فہمی)
(۳) نفح الطیب (علّامہ مقری۔ ترجمہ: مولوی محمد خلیل الرحمن)
(۴) نیپولین اعظم (جوزیف ایبٹ۔ ترجمہ: محمد معین الدّین)
(۵) فلسفہ تعلیم (ہربرٹ اسپینسر۔ ترجمہ: خواجہ غلام الحسنین)
(۶) فاؤسٹ (گوئٹے۔ ترجمہ: ڈاکٹر عابد حسین)
(۷) تاریخ ادبیات ایران (پروفیسر ایڈورڈ براؤن۔ ترجمہ: سیّد سجّاد حسین)
(۸) خطبات گارسین دتاسی (اٹھارویں صدی کا مشہور فرنچ اردو محقّق) ترجمہ: سر راس مسعود، ڈاکٹر یوسف حسین خاں اور ڈاکٹر حمید اللہ
(۹) مقالات گارسین دتاسی (مقدمہ: مولوی عبدالحق)
(۱۰) شکنتلا (کالی داس۔ ترجمہ: اختر حسین رائے پوری)
(۱۱) ہماری نفسیات (ای۔اے۔مینڈر۔ ترجمہ: شیدا محمد)
(۱۲) معمارِ اعظم (ابسن۔ ترجمہ: عزیز احمد)
(۱۳) بقول زرتشت (نتشے۔ ترجمہ: ڈاکٹر ابوالحسن منصور احمد)
(۱۴) الف لیلہٰ و لیلہٰ (سات جلدیں۔ ترجمہ: ڈاکٹر ابوالحسن منصور)
(۱۵) کتاب الہند (البیرونی۔ ترجمہ: سیّد علی اصغر)
(۱۶) ایران بہ عہد ساسانیان (آرتھر کرسٹن سین۔ ترجمہ: ڈاکٹر محمد اقبال)
(۱۷) فن شاعری (ارسطو کی بوطیقا۔ ترجمہ: عزیز احمد)
(۱۸) علم الاقوام (ڈاکٹر بیرن عمر رالف ایرن قیلس۔ ترجمہ ڈاکٹر سیّد عابد حسین)
(۱۹) مشاہیر یونان و روما (چار جلدیں، پلوٹارک، ترجمہ: ہاشمی فرید آبادی)
(۲۰) مکالمات افلاطون (افلاطون۔ ترجمہ: ڈاکٹر سیّد عابد حسین)
(۲۱) جوامع الحکایات و لوامع الروایات (عربی سے ترجمہ: اختر شیرانی)
(۲۲) طربیہ خداوندی (دانتے کی ڈوائن کامیڈی۔ ترجمہ: عزیز احمد)
(۲۳) تاریخ الحکما (جمال الدّین ابو الحسن علی بن یوسف القفطی۔ ترجمہ: ڈاکٹر غلام جیلانی برق)
(۵) انجمن کے رسائل
انجمن نے ۱۹۲۱ء میں جنوبی ایشیا کا وقیع سہ ماہی ’’اردو‘‘ ، ۱۹۲۸ء میں رسالہ ’’سائنس‘‘ اور ۱۹۳۹ء میں اخبار ’’ہماری زبان‘‘ جاری کیا۔ اردو کا مقصد و منشا اردو ادب،اور اعلیٰ تحقیق کو فروغ دینا تھا۔ ’’سائنس‘‘ کے ذریعے سے اردو میں جدید دَور کے سائنسی افکار کی اشاعت ہوئی۔ ’’ہماری زبان‘‘ ’’اردو زبان‘‘ کے بارے میں تازہ ترین خبروں کا مجموعہ ہوتا تھا۔
(۶) املا کے قاعدے
انجمن نے اعراب، اوقاف اور املا کے قواعد مرتّب کیے اور اصلاحِ زبان کی کوشش کی۔ یہ ایک بڑا اہم اور کامیاب ترجمان ثابت ہوا۔
(۷) قدیم کتابوں کی اشاعت
انجمن نے اردو کی قدیم کتابوں کو جو مخطوطوں کی شکل میں مختلف افراد کے ذاتی اور عام کتب خانوں میں بکھری ہوئی تھیں مرتّب کرکے شائع کیا اور ان پر مستند اہلِ علم سے مقدمے لکھوائے۔ دکن کے قدیم اردو ادیبوں اور شاعروں کو منظرعام پر لانا انجمن کا بہت بڑا عملی کارنامہ ہے۔
(۸) شعرائے اردو کے تذکروں کی اشاعت
انجمن نے شعرائے اردو کے قدیم تذکروں کو جنھیں اردو کی ادبی تاریخ کے ابتدائی نقوش کی حیثیت حاصل ہے بڑی کوشش اور تلاش سے شائع کیا اور اردو کی ادبی تاریخ کو مکمل کیا۔
(۹) اردو زبان کے سلسلے میں انجمن کی تندہی
انجمن نے اردو کے خلاف اُٹھنے والی ہر تحریک کا پامردی سے مقابلہ کیا اور مخالفین اردو کے عزائم کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔ مسلمانوں میں قومی یک جہتی بذریعہ اردو کی طویل کامیاب تحریک تاریخ کے ریکارڈ پر ہے۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی کتاب ’’اُردو قومی یکجہتی اور پاکستان‘‘ اسی موضوع پر، پوری کہانی سناتی ہے...
۱۹۳۸ء میں انجمن کا دفتر اورنگ آباد سے دلّی منتقل ہوگیا مگر ۱۹۴۷ء کے فسادات میں انجمن کا سارا اثاثہ برباد ہوگیا۔ عمارت پر ایک بیمہ کمپنی نے قبضہ کرلیا۔ انجمن کا نادر اور قیمتی کتب خانہ لُٹ گیا۔ مطبوعات ردّی میں فروخت کردی گئیں اور کام کرنے کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی گئی۔
دلّی میں انجمن کی تباہی اور بربادی کے بعد بابائے اردو کراچی چلے آئے۔ یہاں ازسرِنو انجمن کے کاموں کا آغاز ہوا۔
بے سروسامانی کے باوجود انجمن نے پاکستان میں نئے عزم اور حوصلے سے کام شروع کیا۔ مشہور ادیب اور ادیب گر سر شیخ عبدالقادر صدر منتخب ہوئے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کو انجمن کے افتتاح کی دعوت دی گئی۔ قائد اعظم نے یہ دعوت منظور کرلی اور لکھا کہ میں اپریل کے بعد کسی دن بخوشی انجمن کا افتتاح کروں گا لیکن اُن کی مصروفیت اور پھر وفات کی وجہ سے یہ ممکن نہ ہوسکا۔ شہید ملّت نوابزادہ لیاقت علی خاں، سردار عبدالرّب نشتراور دوسرے اکابرین وقت نے انجمن سے تعلق جاری رکھا...
سر شیخ عبدالقادر بھی جلد ہی انتقال فرماگئے۔ اب بابائے اردو انجمن کے صدر منتخب ہوئے اور اپنی وفات تک یہ خدمت انجام دیتے رہے۔ بابائے اردو کے بعد اختر حسین نے صدارت کی ذمے داری قبول کی اور اپنی وفات تک صدر رہے اُن کے بعد قدرت اللہ شہاب صدر منتخب ہوئے، اُن کے انتقال کے بعد جناب نورالحسن جعفری انجمن کے صدررہے اور ان کے انتقال کے بعدجناب آفتاب احمد خان انجمن کے صدر ہیں اور خدمات انجام دے رہے ہیں۔
پاکستان میں انجمن کے معتمدین میں بھی بڑے نام شامل ہیں۔ ڈاکٹر محمود حسین، ڈاکٹر معین الحق! جمیل الدّین عالی بابائے اردو کی حیات ہی میں رکن منتظمہ تھے۔ ان کے انتقال کے بعد معتمدِاعزازی مقرر ہوئے۔ وہ یہ خدمت تاحال اعزازی طور پر انجام دے رہے ہیں۔
بے شمار اکابر نے وقتاً فوقتاً انجمن کے دفاتر کا معائنہ کیا۔ اس کے کاموں کا جائزہ لیا اور انجمن کی خدمات کو سراہا۔ ان اکابر میں پاکستان کے پہلے وزیراعظم شہید ملّت لیاقت علی خاں، خواجہ ناظم الدّین، امیر بہاول پور، سردار عبدالرّب نشتر جیسے زعما شامل ہیں۔ سابق مشرقی پاکستان سے وفاقی وزیر فضل الرحمان، مولانا اکرم خاں وغیرہ بطور خاص انجمن کی سرپرستی کرتے رہے۔
پاکستان میں انجمن کی خدمات کا اجمالی جائزہ
(۱) اردو کالجوں کا قیام
جامعہ عثمانیہ حیدرآباد دکن نے اردو کو ہر سطح پر ذریعہ تعلیم بنانے کا کامیاب تجربہ کیا تھا۔انجمن نے پاکستان میں کام شروع کرتے ہی بے سروسامانی اور وسائل کی کمی کے باوجود اس تجربے کو پاکستان میں عام کرنے اور قومی ترقّی کے جذبے سے طے کیا کہ ایک بین الصوبائی یعنی قومی سطح پر ایک اقامتی جامعہ اردو قائم کی جائے۔ ابتدائی مرحلے میں کالج قائم کرنا تھا۔چناں چہ کراچی میں اردو کالج قائم کیا گیا جس میں فنون، سائنس، تجارت اور قانون کی تعلیم اردو میں ہوتی ہے۔ ابتدا میں یہ کالج انجمن ہی کی عمارت میں تھا بعد میں یونیورسٹی روڈ پر ایک موزوں قطع زمین (چوبیس ایکڑ) حاصل کیاگیا۔ کسی قدر سرکاری گرانٹ اور بیشتر عوامی چندے سے ایک وسیع عمارت اور معمل تعمیر ہوئے اور سائنس کالج وہاں منتقل کردیا گیا۔ اس طرح دو کالج ہوگئے۔ تعلیم قومیائی گئی مگر اب ان (وفاقی) اردو فنون اور اردو سائنس کالجوں کو شاندار اداروں کی حیثیت حاصل ہے۔ تعلیم کے قومیائے جانے کے بعد سے یہ ادارے اپنی خصوصی نوعیت کی وجہ سے نہ صرف وفاقی حکومت کے زیرانتظام ہیں بلکہ اردو تدریسی تجربہ کامیاب ہونے کی وجہ سے ایک علاحدہ یونیورسٹی میں تبدیل ہوجانے کے امکانات رکھتے ہیں۔ قومیائے جانے تک ان میں ایم۔اے، ایم ایس۔سی اور ایل ایل ایم تک تدریس اردو میں ہونے لگی تھی۔ اب یہ سلسلہ محکم تر ہوگیا ہے۔
(۲) علمی اصطلاحات کی فرہنگیں
انجمن نے اعلیٰ سطح کی سائنسی تعلیم کے لیے علمی اصطلاحوں کی ضرورت کو محسوس کیا اور فوری طور پر یہ کام شروع کردیا گیا تجارت اور صنعت و حرفت کے حوالے سے بینکاری کی اصطلاحوں کی ایک فرہنگ بھی شائع کردی گئی ہے۔ انجمن کے رجحان ساز اقدامات سے ملک کی مختلف یونیورسٹیوں میں اصطلاحات کے ترجمے کا کام زور و شور سے شروع ہوگیا تھا۔ حال ہی میں انجمن نے بینکاری کی اصطلاحوں کا دوسرا مجموعہ شائع کیا ہے جو دس ہزار سے زیادہ اصطلاحوں پر مبنی ہے۔
(۳) دیگر پاکستانی زبانیں اور انجمن
انجمن اردو اور دیگر پاکستانی (علاقائی) زبانوں کے مابین کوئی تنازعہ نہیں سمجھتی۔ چاروں علاقائی زبانوں کا فروغ سمجھتی ہے علاقائی زبانوں سے اردو میں ترجمے کرائے گئے ہیں اور جاری ہیں۔ اردو سے ان کا مسلسل ارتباط اور باہمی تعاون انجمن کی پالیسی کا بنیادی نکتہ ہے۔
(۴) سرکاری اور غیرسرکاری اداروں کو مشورے اور ان کے ساتھ تعاون
انجمن نے حکومت کے اداروں مثلاً ریلوے کے لیے انگریزی اصطلاحوں کے اردو مترادفات تیار کیے۔ محکمہ ڈاک کے لیے بھی اصطلاحات کے ترجمے کیے گئے۔ عساکر پاکستان کے امتحانات اردو کے نصابوں کی اصطلاح اور ترمیم کی گئی۔ بلدیہ عظمیٰ کراچی کے لیے مختلف دفتری اصطلاحوں کے ترجمے کیے گئے۔ متعدد سرکاری اور تجارتی اداروں سے مشاورتی اشتراک جاری ہے۔
(۵) بابائے اردو یادگاری لیکچر
یہ لیکچر بابائے اردو کی یاد میں ہر سال ہوتا ہے۔ ملک و بیرون ملک کے کسی ممتاز عالم کو کسی خاص موضوع پر اظہار خیال کی دعوت دی جاتی ہے۔ یہ لیکچر کتابی شکل میں شائع بھی کیا جاتا ہے۔ اب تک درج ذیل لیکچر ہوچکے ہیں:
(الف) محمد تقی میر ڈاکٹر جمیل جالبی
(ب) جمالیات اور اردو ادب ڈاکٹر ریاض الحسن
(ج) اردو کا علمی و فکریاتی ادب ڈاکٹر سیّد عبداللہ
(د) جدید اردو تحقیق ڈاکٹر وحید قریشی
(ہ) جدید اردو تنقید ڈاکٹر وزیر آغا
(و) جدید اردو شاعری عزیز حامد مدنی
(ز) ادب میں علامات ڈاکٹر تنویر احمد
(ح) سرسیّد کا تعلیمی منصوبہ ڈاکٹر نورالحسن نقوی
(۶) بزرگ ادیبوں اور شاعروں کی خدمات کا اعتراف... ’’نشانِ سپاس‘‘
انجمن نے اردو اور علاقائی زبانوں کے بزرگ لکھنے والوں کی ادبی خدمات کے اعتراف میں جلسوں کا ایک سلسلہ شروع کررکھا ہے۔ اب تک درج ذیل بزرگ ادیبوں اور شاعروں کے اعزاز میں جلسے ہوچکے ہیں اور انھیں ’’نشانِ سپاس‘‘ پیش کیا جاچکا ہے:
(الف) جناب احمد ندیم قاسمی
(ب) جناب ڈاکٹر غلام مصطفی خاں
(ج) جناب اشرف صبوحی
(د) جناب میرزا ادیب
(ہ) جناب فارغ بخاری
(و) جناب رضا ہمدانی
(ز) جناب ابوالفضل صدیقی
(ح) جناب تابش دہلوی
(ط) جناب پروفیسر ممتاز حسین
(ی) جناب جلیل قدوائی
(ک) جناب امیر حمزہ شنواری (پشتو)
(ل) جناب شریف کنجاہی (پنجابی)
(م) جناب مولانا غلام مصطفی قاسمی (سندھی)
(ن) جناب میر مٹھا خاں مری (بلوچی)
(س) جناب شان الحق حقّی
(ع) جناب سیّد ضمیر جعفری
(ف) جناب ممتاز مفتی
(ق) جناب حمید نسیم
(ر) حکیم محمد سعید
(۷) پاکستان کی مختلف یونیورسٹیوں میں ایم اے اردو اوّل بدرجہ اوّل آنے والے طلبہ کے لیے طلائی تمغے اور نقدانے
انجمن ملک کی مختلف یونیورسٹیوں میں اردو زبان و ادب میں ایم اے کرنے والے طلبہ کی حوصلہ افزائی کے لیے اوّل بدرجہ اوّل آنے والے طالب علم کو طلائی تمغہ اور مبلغ پانچ سو روپے نقد ادا کرتی ہے۔ یہ تمغے اور نقدانے یونیورسٹیوں کے جلسہ تقسیم اسناد میں پیش کیے جاتے ہیں۔
(۸) علمی و ادبی کارنامے (مسلسل) تحریک و تعاونِ عام کے ساتھ)
(۱) مثنوی نظامی دکنی عرف کدم راؤ پدم راؤ کی اشاعت۔ (اردو کی پہلی کتاب)
نظامی دکنی کی اس قدیم مثنوی کا واحد مخطوطہ انجمن کی ملکیت ہے۔ اس مثنوی کا اور کوئی مخطوطہ دنیا کے کسی کتب خانے میں نہیں ہے۔ ممتاز محقّق ڈاکٹر جمیل جالبی نے فاضل اجّل جناب افسر امروہوی مرحوم کی معاونت کے ساتھ بڑی محنت اور دیدہ ریزی سے اُسے پڑھ کر اشاعت کے لیے مرتّب کیا۔ اس مثنوی کی اشاعت سے اُردو ادب کی تاریخ کا ایک باب مکمل ہوا ہے کیوں کہ بابائے اُردو کی آخری تحقیق کے مطابق یہی اُردو کی پہلی باقاعدہ کتاب ثابت ہوتی ہے۔ شائع شدہ کتاب میں ایک طرف اصل متن کا عکس اور دوسری طرف وہی مروّج نستعلیق میں ہے ڈاکٹر جالبی کا توضیحی مقالہ اور جمیل الدّین عالی کا مقدّمہ متن کی تعبیر بھی کرتے ہیں۔
(۲) پاپولر انگریزی اردو ڈکشنری (ساتواں ایڈیشن)
(۳) اسٹوڈنٹس انگریزی اردو ڈکشنری (تیرھواں ایڈیشن)
(۴) اردو انگریزی ڈکشنری (پانچواں ایڈیشن)
(۵) پاکٹ انگریزی اردو ڈکشنری (چوتھا ایڈیشن)
انجمن نے یہ ڈکشنریاں عام قاری، طلبہ اور روزمرّہ کے الفاظ دیکھنے والوں کے لیے خاص طور پر مرتّب کروائی ہیں۔
(۶) مصطلاحاتِ علوم و فنون عربیہ
یہ علوم مشرقی کی اصطلاحوں کی توضیحی لغت ہے۔ علمی کام کرنے والوں اور علوم مشرقی کو سمجھنے کے لیے یہ لغت بہت مفید ہے۔
(۷) تاریخ مسلمانان پاکستان و بھارت (دو جلدیں)
قیامِ پاکستان کے فوراً بعد طلبہ اور عام قارئین کے لیے ایک مستند قومی تاریخ کی ضرورت شدّت سے محسوس کی گئی۔ انجمن نے اس قومی ضرورت کے تحت ممتاز مورّخ ہاشمی فرید آبادی سے یہ تاریخ لکھوائی۔ ہاشمی صاحب نے یہ تاریخ اصل ماخذات سے مرتّب کی ہے۔
(۸) قاموس الکتب (تین جلدیں...)
یونیسکو کے تعاون سے تیار ہونے والی مطبوعہ اردو کتابوں کی یہ توضیحی لغت فن وار مرتّب کی گئی ہے۔ پہلی جلد میں اردو زبان میں شائع ہونے والی تمام مذہبی کتابوں کی فہرست ہے۔ دوسری جلد تاریخیات اور تیسری عمرانیات سے متعلق ہے۔ چوتھی سائنس کی کتابوں کے بارے میں ہے جو زیرطبع ہے۔ پانچویں ادبیات سے تعلق رکھتی ہے اور زیرترتیب ہے۔
(۹) اقوال و امثال
اردو ضرب الامثال، محاورے اور ان کے عربی، فارسی، سندھی، پنجابی اور پشتو مترادفات۔ یوسف بخاری مرحوم کی یہ فرہنگ اردو اور علاقائی زبانوں کے قریبی تعلق کو بھی واضح کرتی ہے۔
(۹) علاقائی ادب کی ترویج بذریعہ اردو
قومی زبان اور علاقائی زبانوں کو ایک دوسرے سے قریب لانے اور ایک دوسرے کے بہتر تفہیم کے لیے انجمن نے یہ کتابیں شائع کی ہیں:
(۱) موج موج مہران
معاصر سندھی شعرا کے سندھی کلام کا منظوم ترجمہ
(۲) پشتو شاعری
پشتو شاعری کا سیرحاصل جائزہ اور ترجمہ
(۳) پنجابی زبان و ادب کی تاریخ
(۴) پنجابی کے پانچ قدیم شاعر
(۵) مثنوی سیف الملوک
میاں محمد بخش کی شہرۂ آفاق مثنوی کی تلخیص اور اردو ترجمہ
(۱۰) انجمن کے علمی اور ادبی منصوبے (بیرونِ پاکستان مراکز اردو سے ممکنہ تعاون کے علاوہ)
(۱) لغت مترادفات و متضادات
تقریباً پچاس ہزار الفاظ کے مترادفات اور متضادات کی یہ لغت ترتیب اوّل پاکر نظرثانی کے مرحلے سے گزر رہی ہے۔ یہ لغت علمی اور ادبی کام کرنے والوں، مترجمین اور اعلیٰ سطح کے طالب علموں کی سہولت کے لیے مرتّب کی گئی ہے۔
(۲) اسٹینڈرڈ انگریزی اردو ڈکشنری میں پندرہ ہزار نئے الفاظ کا اضافہ
اِس مقبول ترین ڈکشنری کے پاکستان میں بھی پانچ ایڈیشن (ڈھائی ہزار اضافی الفاظ کے ساتھ) چھپ چکے ہیں۔
فکری، سائنسی اور تہذیبی ترقّی نے زبانوں کے ذخیرہ الفاظ اور معنویت میں بڑا اضافہ کیا ہے۔ اس صورتِ حال اور جدید تقاضوں کے پیش نظر انگریزی کے پندرہ ہزار نئے الفاظ کا انتخاب کرکے ان کی معنوی نویسی کی گئی ہے۔ ان الفاظ میں پانچ ہزار مشہور امریکی لغت ’’ویبسٹر‘‘ سے لیے گئے ہیں تاکہ امریکی محاورہ بھی ہماری ڈکشنری میں شامل ہوجائے۔ یہ نیا ایڈیشن زیرترتیب و اشاعت ہے۔
(۱۱) علاقائی اور دیگر زبانوں سے تراجم
(۱) پاکستان کی علاقائی زبانوں کے منتخب افسانوں کا ایک ترجمہ تیاری کے مرحلے میں ہے۔
(۲) برطانیہ اور دیگر ممالک میں آباد پاکستانیوں کے بارے میں لکھے جانے والے انگریزی افسانوی مجموعے ’’زبانِ واحد‘‘ کا ترجمہ اشاعت کیاجاچکا ہے۔
(۳) اردو کے ممتاز برطانوی عالم پروفیسر رالف رسل کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ (انگریزی) ترجمہ کرکے شائع کیا جاچکا ہے۔
(۴) فلسطینیوں پر کیے جانے والے ظلم و بربرّیت کی ایک داستان ’’سعید کی پُراسرار زندگی‘‘ شائع ہوچکی ہے اس پُراثر ناول کا ترجمہ ممتاز ادیب جناب انتظار حسین نے کیا ہے۔
(۵) ممتاز سائنس داں ڈارون کی کتاب ’’آغاز انواع‘‘ کا ترجمہ ملک کے ممتاز دانشور سیّد محمد تقی نے کیا تھا۔ اشاعت کے لیے تیار کی جارہی ہے۔
(۱۲) اشاعتی پروگرام
انجمن ہر سال ایک طے شدہ پروگرام کے مطابق تحقیق، تنقید، تاریخ اور ادب سے متعلق متعدد کتابیں شائع کرتی ہے۔ پاکستان میں اپنے قیام سے اس وقت تک انجمن ۶۰۰ سے زائدعلمی، ادبی اور تحقیقی کتابیں شائع کرچکی ہے۔ یہ ایک غیرتجارتی بنیادوں پر نہایت وقیع سلسلہ ہے۔
(۱۳) انجمن کے رسالے
انجمن دو رسالے ماہنامہ ’’قومی زبان‘‘ اور سہ، ماہی’’اردو‘‘ شائع کرتی ہے۔ ’’قومی زبان‘‘ ۱۹۴۹ء سے شائع ہورہا ہے۔ ’’اردو‘‘ اردو کا قدیم ترین علمی اور تحقیقی رسالہ ہے۔
(۱۴) انجمن کے کتب خانے۔ کتب خانۂ خاص، ایک بڑا خزانہ
پاکستان میں اپنے قیام کے بعد انجمن نے محقّقوں، علمی کام کرنے والوں، طلبہ اور عام قارئین کے لیے دو کتب خانے قائم کیے۔ کتب خانۂ خاص ۲۶ ہزار نادر اور کمیاب کتابوں پر مشتمل ہے اور اپنی نوعیت کا واحد کتب خانہ ہے۔ جس میں اردو، فارسی، عربی، انگریزی، جرمن اور فرانسیسی کتابوں کا ذخیرہ ہے۔ اس سے استفادہ کرنے دنیا بھر سے محقّقین اردو آتے ہیں۔ انھیں ضروری سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں۔
کتب خانہ عام۔ عام پڑھنے والوں کے لیے ہے۔ اس میں چودہ ہزار کتابیں ہیں۔
کتب خانۂ خاص و عام سے استفادہ کرنے والوں کی تعداد روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔
(۱۵) انجمن کے مخطوطے
انجمن کے پاس اردو، فارسی اور عربی کے قلمی نسخوں کا بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ ان تمام نسخوں کی توضیحی فہرستیں مرتّب ہوکر شائع ہوچکی ہیں۔ مناسب نگہداشت اور حفاظت کے خیال سے ان قلمی نسخوں کو قومی عجائب خانے میں رکھا گیا ہے۔ مناسب جگہ فراہم ہونے کے بعد انھیں انجمن میں رکھا جائے گا۔
(۱۶) انجمن کی عمارت
انجمن کے قیام کے وقت حکومتِ سندھ نے اس کے لیے ایک متروکہ عمارت الاٹ کردی تھی۔ انجمن کے دفاتر اسی عمارت میں کام کرتے رہے۔ اسی عمارت میں اردو کالج بھی قائم ہوا اور رفتہ رفتہ عمارت کا بڑا حصّہ اس کے تصرّف میں آگیا۔ کالج میں ہنگاموں کی وجہ سے ۱۹۹۱ء میں انجمن کے بعض دفاتر اور کتب خانۂ خاص کو گلشنِ اقبال کی ایک عمارت میں منتقل کیا گیا۔ تاہم شعبۂ فروخت پُرانی عمارت ہی میں ہے۔ بابائے اُردو کی آخری آرام گاہ بھی اسی عمارت میں ہے۔ ہال کی مرمّت اور کمروں میں دوسرے شعبوں پر کام ہو رہا ہے۔
(۱۷) نیا تعمیراتی منصوبہ
انجمن نے اپنے وسائل سے پانچ ہزار گز کا ایک قطع زمین گلستانِ جوہر میں خریدا ہے۔ اس پلاٹ پر موزوں عمارت کی تعمیر کا منصوبہ تیار کیا جارہا ہے مگر اندازہ ہے کہ اس تعمیر پر تقریباً ایک کروڑ روپے لاگت آئے گی۔ انجمن کے وسائل بہت محدود ہیں اس وجہ سے تعمیری منصوبے پر مطلوبہ کام نہیں ہوا۔ یہ منصوبہ اہلِ خیر کے حسن تعاون کا منتظر ہے۔
(۱۸) اقامتی جامعہ اردو کا قیام
انجمن خود قائم کرسکے یا دوسرے کارکنوں/اداروں سے تعاون!
انجمنِ ترقّئ اُردو کی تاریخ برّصغیر پاک و ہند میں خلوص، لگن، جدّوجہد اور سعی و عمل کی تاریخ ہے۔ سرسیّد احمد خاں کے عہد میں مسلمان ۱۸۵۷ء کی ہزیمت سے سہمے ہوئے تھے۔ ہندوؤں کو بھاری اکثریت کے ساتھ ساتھ فرنگی حکمرانوں کی سرپرستی بھی حاصل تھی۔ چناں چہ انھوں نے اس سے فائدہ اٹھاکر یہ آواز بلند کی کہ عدالتوں کی ساری کارروائی ہندی زبان میں ہونا چاہیے۔ اس نعرے نے ایک تحریک کی شکل اختیار کرلی اور اس سلسلے میں قوّت اور اکثریت کے دباؤ دونوں سے کام لیاگیا۔ سرسیّد کو اس تحریک کے نقصان دہ اثرات کا اندازہ ہوگیا تھا۔ انھوں نے یہ صورتِ حال دیکھ کر اپنے آپ کو صرف مسلمانوں کے قومی کاموں کے لیے وقف کرلیا اور دو قومی نظریے کی ترویج و اشاعت کی۔
سرسیّد نے اپنی زندگی کے آخری لمحے تک بڑے زور و شور سے اردو زبان کی مدافعت جاری رکھی۔ اُن کے بعد اُن کے لائق جانشینوں نواب محسن الملک اور نواب وقار الملک نے یہ خدمت انجام دی۔سرسیّد نے مسلمانوں کی تعلیمی ترقّی کے لیے ایک ادارہ ’’مسلم ایجوکیشنل کانفرنس‘‘ کے نام سے قائم کیا تھا۔ مسلم ایجوکیشنل کے سالانہ جلسے ہماری قومی اور تعلیمی تاریخ میں اہمیت کے حامل ہیں۔ ترقّئ اردو بھی مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کا ایک مقصد تھا جس کے حوالے سے کام ہوتا رہتا تھا۔ مگر یہ بات شدّت کے ساتھ محسوس کی جا رہی تھی کہ ترقّئ اردو اور اردو کی مدافعت کے لیے ایک ہمہ جہت فعّال اور مستعد ادارے کی ضرورت ہے۔
۱۹۰۳ء میں مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کا سالانہ جلسہ دلّی میں منعقد ہوا۔ اس جلسے میں کانفرنس کے مختلف شعبے قائم کیے گئے۔ اِنھیں شعبوں میں ایک شعبہ ترقّئ اردو کا بھی تھا۔ یہی شعبہ’ انجمنِ ترقّئ اُردو‘کی بنیاد تھا۔ درج ذیل حضرات انجمن کے عہدیدار نامزد ہوئے:
صدر پروفیسر ٹامس آرنلڈ (علی گڑھ کالج کے پرنسپل تھے، اس وقت جامعہ نہیں بنی تھی)
نائب صدر شمس العلماء مولوی نذیر احمد
نائب صدر شمس العلماء مولانا الطاف حسین حالی
نائب صدر شمس العلماء مولوی ذکاء اللہ
سیکریٹری شمس العلماء مولانا محمد شبلی نعمانی
انجمن کا ابتدائی دور بڑی جدّوجہد اور کشمکش کا دور تھا۔ کسی ادارے کو کامیاب اور روایت ساز بنانے کے لیے غیرمعمولی محنت کرنا پڑتی ہے۔ انجمن کے عہدے داروں نے بڑی محنت کی اور انجمن کو ایک حیثیت دی لیکن دو تین برسوں کے وقفے سے یکے بعد دیگرے تین سیکریٹری مقرر ہوئے اس وجہ سے کام کسی حد تک متاثر ہوا مولانا شبلی کو اپنی مصروفیات کی وجہ سے مستعفی ہونا پڑا۔ نواب صدر یار جنگ نے اُن کا کام سنبھالا۔ وہ بھی اپنی دوسری انتظامی مصروفیات کی وجہ سے مستعفی ہوگئے۔ مولوی عزیز مرزا سیکریٹری مقرر ہوئے۔ وہ بہت فعّال اور کارگزار انسان تھے۔ بڑے ذوق و شوق اور محنت سے کام شروع کیا لیکن ۱۹۱۱ء میں اُن کا انتقال ہوگیا اور انجمن ایک مستعد سیکریٹری سے محروم ہوگئی۔
۱۹۱۲ء میں ایجوکیشنل کانفرنس کا اجلاس پھر دلّی میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں انجمن کی کارگزاری اور حالات پر بھی غور ہوا ۔ یہ طے ہوا کہ مولوی عبدالحق (اس وقت صدر مہتمم تعلیمات اورنگ آباد) کو سیکریٹری مقرر کیا جائے۔ مولوی صاحب سرسیّد کے تربیت یافتہ تھے محسن الملک کے ساتھ کام کرچکے تھے۔ مولانا حالی کے عقیدت مند اور علمی، ادبی کاموں سے دلچسپی رکھتے تھے۔ مولوی صاحب انجمن کے سیکریٹری مقرر ہوگئے۔ انجمن کو اپنے ساتھ اورنگ آباد لے آئے اور رفتہ رفتہ اس صدی میں اردو زبان و ادب کی ترقّی کی سب سے بڑی انجمن کا سب سے اہم حوالہ بن گئے۔
مولوی عبدالحق انجمنِ ترقّئ اُردو کے سیکریٹری ہی نہیں مجسّم ترقّی اردو تھے۔ اُن کا سونا جاگنا، اُٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا، پڑھنا لکھنا، آنا جانا، دوستی، تعلقات، روپیہ پیسہ غرض کہ سب کچھ انجمن کے لیے تھا۔ ساری تنخواہ انجمن کی نذر کردیتے (بعد میں پینشن بھی انجمن پر ہی خرچ کرتے رہے) لکھنے پڑھنے سے جو آمدنی ہوتی وہ بھی انجمن کے کھاتے میں جاتی۔ زندہ رہے تو اردو کے لیے اور یہ بھی ریکارڈ پر ہے کہ کراچی کے جناح اسپتال میں بسترمرگ پر تھے مگر لیٹے لیٹے ’’قاموس الکتب‘‘ (جلد اوّل) کا معرکہ آرا مقدمہ لکھ دیا۔
مولوی عبدالحق نے جنھیں انجمن کے حوالے اور اردو کی خدمت سے خواص و عوام نے ’’بابائے اردو‘‘ کا خطاب دیا انجمن کو غیرمعمولی ترقّی دی۔ اس کی خدمات کا دائرہ وسیع کیا۔ وقت کے جدید تقاضوں کے مطابق علمی اور ادبی منصوبے مرتّب کیے اور ان پر بڑی دل جمعی سے کام کیا انجمن کے کاموں کی ایسی شہرت ہوئی کہ نظام دکن میر عثمان علی خاں نے ایک ذاتی فرمان کے ذریعے سے اس کی سرپرستی منظور کی اور اس کے لیے مستقل امداد جاری کردی۔
انجمن نے ۱۹۴۷ء تک جو خدمات انجام دیں اُن کا ایک اجمالی خاکہ یہ ہے:
(۱) ہندی اردو تنازع اور انجمن
برطانوی اقتدار قائم ہونے کے بعد برصغیر کے بیشتر کھلے طور پر متعصب اور بعض متعصب نہ ظاہر ہونے والے ہندو رہنماؤں نے اس بات پر پورا زور صرف کیا تھا کہ دیوناگری رسم الخط الفاظ اور ہندی زبان کو سرکاری حیثیت حاصل ہو جائے اور ہندی کو برّصغیر کی واحد مشترک زبان تسلیم کرلیا جائے۔ ’’اردو کو جو قرآنی حروف میں لکھی جاتی ہے۔‘‘ یک قلم خارج کردیا جائے۔ انڈین نیشنل کانگریس کے بااثر عناصر اور دوسری ہندو جماعتوں نے ہندی کو رواج دینے کی بڑی کوشش کی اور اس سلسلے میں بڑی پیچیدہ، چالاک سیاست سے کام لیا لیکن انجمن اور بابائے اردو کی اَن تھک محنت، حوصلے اور مقابلے کی وجہ سے انھیں کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ انجمن نے ہندی اردو تنازعے میں اردو زبان کی سلامتی اور تحفّظ کے لیے بڑی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ انجمن کے یہ کارنامے تحریکِ پاکستان اور قومی تاریخ کا اہم حصّہ ہیں۔
(۲) اردو زبان کی ترویج و اشاعت۔ مخالفتوں اور مشکلات کا دَور
انجمن نے ایک مرحلہ وار پروگرام کے تحت جنوبی ایشیا کے اُن علاقوں میں جہاں اردو کا رواج برائے نام تھا، اردو کو رواج دیا۔ اس مقصد کے لیے اسکول اور شبینہ مدارس قائم کیے، تعلیم بالغان کا انتظام کیا، چھوٹا ناگپور کے علاقے میں جو مراکز قائم کیے گئے تھے انھیں بڑی کامیابی ہوئی۔ جن علاقوں کے اسکولوں میں اردو اساتذہ کی کمی تھی وہاں انجمن نے اردو اساتذہ کے تقرّر کا بندوبست کیا، درسی کتابیں شائع کیں، ناقص درسی کتابوں کی درستی کے لیے بھرپور جدّوجہد کی۔ بابائے اردو نے سارے ملک کے متعدد دورے کیے۔ انجمن کے معاونوں اور حامیانِ اردو کا ایک بہت بڑا حلقہ مرتّب کیا جس میں ملک کے تمام مقتدر اہلِ علم شامل تھے۔ بے شمار رضاکاروں نے شہر شہر قریہ قریہ شاخیں اور ذیلی شاخیں کھولیں، باقاعدگی اور تواتر کے ساتھ بڑے چھوٹے مذاکرے، جلسے اور منصوبے منعقد و مرتّب ہونے لگے...
(۳) اصطلاحاتِ علمیہ اور انگریزی اردو ڈکشنری
اردو زبان کو ہر سطح پر ذریعہ تعلیم بنانے اور علوم و فنون کے جدید سرمائے کو اردو زبان میں منتقل کرنے کے لیے انجمن نے اصطلاحاتِ علمیہ کے ترجموں کا کام کیا اور ترجموں میں سہولت پیدا کرنے کی غرض سے ایک’ اسٹینڈرڈ انگریزی اردو ڈکشنری‘ مرتّب کی۔ یہ کام بابائے اردو کی سرکردگی میں ماہرین کی ایک جماعت نے انجام دیا۔ انجمن کی یہ ڈکشنری اب تک متعدد بار شائع ہوچکی ہے۔ بعض علوم کی اصطلاحات کی فرہنگیں علاحدہ سے بھی شائع کی گئیں۔ انجمن کے اس کام سے اصطلاحات کے ترجموں کی طرف توجہ عام ہوئی۔
اسی ذخیرے سے اسّی ہزار اصطلاحات اردو بورڈ (اب اردو سائنس بورڈ لاہور) کو ہدیہ کی گئیں جو اس کے منصوبے میں شامل ہیں۔
(۴) علمی و ادبی کتابوں کے تراجم
انجمن نے دنیا کی اہم علمی اور ادبی کتابوں کو اردو میں منتقل کرنے کے لیے ایک مرحلہ وار پروگرام کے تحت کام شروع کیا اور ایسی بے شمار کتابوں کے ترجمے شائع کیے۔ جنھیں اُمہات الکتب میں شمار کیا جاتا ہے۔ بعض اہم ترجمے یہ ہیں:
نمبر نام مصنّف
(۱) تاریخ تمدّن (سر ہینری طامس بکل۔ ترجمہ: منشی محمد احد علی)
(۲) تاریخ ملل قدیم (سینویس۔ ترجمہ: سیّد محمود اعظم فہمی)
(۳) نفح الطیب (علّامہ مقری۔ ترجمہ: مولوی محمد خلیل الرحمن)
(۴) نیپولین اعظم (جوزیف ایبٹ۔ ترجمہ: محمد معین الدّین)
(۵) فلسفہ تعلیم (ہربرٹ اسپینسر۔ ترجمہ: خواجہ غلام الحسنین)
(۶) فاؤسٹ (گوئٹے۔ ترجمہ: ڈاکٹر عابد حسین)
(۷) تاریخ ادبیات ایران (پروفیسر ایڈورڈ براؤن۔ ترجمہ: سیّد سجّاد حسین)
(۸) خطبات گارسین دتاسی (اٹھارویں صدی کا مشہور فرنچ اردو محقّق) ترجمہ: سر راس مسعود، ڈاکٹر یوسف حسین خاں اور ڈاکٹر حمید اللہ
(۹) مقالات گارسین دتاسی (مقدمہ: مولوی عبدالحق)
(۱۰) شکنتلا (کالی داس۔ ترجمہ: اختر حسین رائے پوری)
(۱۱) ہماری نفسیات (ای۔اے۔مینڈر۔ ترجمہ: شیدا محمد)
(۱۲) معمارِ اعظم (ابسن۔ ترجمہ: عزیز احمد)
(۱۳) بقول زرتشت (نتشے۔ ترجمہ: ڈاکٹر ابوالحسن منصور احمد)
(۱۴) الف لیلہٰ و لیلہٰ (سات جلدیں۔ ترجمہ: ڈاکٹر ابوالحسن منصور)
(۱۵) کتاب الہند (البیرونی۔ ترجمہ: سیّد علی اصغر)
(۱۶) ایران بہ عہد ساسانیان (آرتھر کرسٹن سین۔ ترجمہ: ڈاکٹر محمد اقبال)
(۱۷) فن شاعری (ارسطو کی بوطیقا۔ ترجمہ: عزیز احمد)
(۱۸) علم الاقوام (ڈاکٹر بیرن عمر رالف ایرن قیلس۔ ترجمہ ڈاکٹر سیّد عابد حسین)
(۱۹) مشاہیر یونان و روما (چار جلدیں، پلوٹارک، ترجمہ: ہاشمی فرید آبادی)
(۲۰) مکالمات افلاطون (افلاطون۔ ترجمہ: ڈاکٹر سیّد عابد حسین)
(۲۱) جوامع الحکایات و لوامع الروایات (عربی سے ترجمہ: اختر شیرانی)
(۲۲) طربیہ خداوندی (دانتے کی ڈوائن کامیڈی۔ ترجمہ: عزیز احمد)
(۲۳) تاریخ الحکما (جمال الدّین ابو الحسن علی بن یوسف القفطی۔ ترجمہ: ڈاکٹر غلام جیلانی برق)
(۵) انجمن کے رسائل
انجمن نے ۱۹۲۱ء میں جنوبی ایشیا کا وقیع سہ ماہی ’’اردو‘‘ ، ۱۹۲۸ء میں رسالہ ’’سائنس‘‘ اور ۱۹۳۹ء میں اخبار ’’ہماری زبان‘‘ جاری کیا۔ اردو کا مقصد و منشا اردو ادب،اور اعلیٰ تحقیق کو فروغ دینا تھا۔ ’’سائنس‘‘ کے ذریعے سے اردو میں جدید دَور کے سائنسی افکار کی اشاعت ہوئی۔ ’’ہماری زبان‘‘ ’’اردو زبان‘‘ کے بارے میں تازہ ترین خبروں کا مجموعہ ہوتا تھا۔
(۶) املا کے قاعدے
انجمن نے اعراب، اوقاف اور املا کے قواعد مرتّب کیے اور اصلاحِ زبان کی کوشش کی۔ یہ ایک بڑا اہم اور کامیاب ترجمان ثابت ہوا۔
(۷) قدیم کتابوں کی اشاعت
انجمن نے اردو کی قدیم کتابوں کو جو مخطوطوں کی شکل میں مختلف افراد کے ذاتی اور عام کتب خانوں میں بکھری ہوئی تھیں مرتّب کرکے شائع کیا اور ان پر مستند اہلِ علم سے مقدمے لکھوائے۔ دکن کے قدیم اردو ادیبوں اور شاعروں کو منظرعام پر لانا انجمن کا بہت بڑا عملی کارنامہ ہے۔
(۸) شعرائے اردو کے تذکروں کی اشاعت
انجمن نے شعرائے اردو کے قدیم تذکروں کو جنھیں اردو کی ادبی تاریخ کے ابتدائی نقوش کی حیثیت حاصل ہے بڑی کوشش اور تلاش سے شائع کیا اور اردو کی ادبی تاریخ کو مکمل کیا۔
(۹) اردو زبان کے سلسلے میں انجمن کی تندہی
انجمن نے اردو کے خلاف اُٹھنے والی ہر تحریک کا پامردی سے مقابلہ کیا اور مخالفین اردو کے عزائم کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔ مسلمانوں میں قومی یک جہتی بذریعہ اردو کی طویل کامیاب تحریک تاریخ کے ریکارڈ پر ہے۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی کتاب ’’اُردو قومی یکجہتی اور پاکستان‘‘ اسی موضوع پر، پوری کہانی سناتی ہے...
۱۹۳۸ء میں انجمن کا دفتر اورنگ آباد سے دلّی منتقل ہوگیا مگر ۱۹۴۷ء کے فسادات میں انجمن کا سارا اثاثہ برباد ہوگیا۔ عمارت پر ایک بیمہ کمپنی نے قبضہ کرلیا۔ انجمن کا نادر اور قیمتی کتب خانہ لُٹ گیا۔ مطبوعات ردّی میں فروخت کردی گئیں اور کام کرنے کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی گئی۔
دلّی میں انجمن کی تباہی اور بربادی کے بعد بابائے اردو کراچی چلے آئے۔ یہاں ازسرِنو انجمن کے کاموں کا آغاز ہوا۔
بے سروسامانی کے باوجود انجمن نے پاکستان میں نئے عزم اور حوصلے سے کام شروع کیا۔ مشہور ادیب اور ادیب گر سر شیخ عبدالقادر صدر منتخب ہوئے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کو انجمن کے افتتاح کی دعوت دی گئی۔ قائد اعظم نے یہ دعوت منظور کرلی اور لکھا کہ میں اپریل کے بعد کسی دن بخوشی انجمن کا افتتاح کروں گا لیکن اُن کی مصروفیت اور پھر وفات کی وجہ سے یہ ممکن نہ ہوسکا۔ شہید ملّت نوابزادہ لیاقت علی خاں، سردار عبدالرّب نشتراور دوسرے اکابرین وقت نے انجمن سے تعلق جاری رکھا...
سر شیخ عبدالقادر بھی جلد ہی انتقال فرماگئے۔ اب بابائے اردو انجمن کے صدر منتخب ہوئے اور اپنی وفات تک یہ خدمت انجام دیتے رہے۔ بابائے اردو کے بعد اختر حسین نے صدارت کی ذمے داری قبول کی اور اپنی وفات تک صدر رہے اُن کے بعد قدرت اللہ شہاب صدر منتخب ہوئے، اُن کے انتقال کے بعد جناب نورالحسن جعفری انجمن کے صدررہے اور ان کے انتقال کے بعدجناب آفتاب احمد خان انجمن کے صدر ہیں اور خدمات انجام دے رہے ہیں۔
پاکستان میں انجمن کے معتمدین میں بھی بڑے نام شامل ہیں۔ ڈاکٹر محمود حسین، ڈاکٹر معین الحق! جمیل الدّین عالی بابائے اردو کی حیات ہی میں رکن منتظمہ تھے۔ ان کے انتقال کے بعد معتمدِاعزازی مقرر ہوئے۔ وہ یہ خدمت تاحال اعزازی طور پر انجام دے رہے ہیں۔
بے شمار اکابر نے وقتاً فوقتاً انجمن کے دفاتر کا معائنہ کیا۔ اس کے کاموں کا جائزہ لیا اور انجمن کی خدمات کو سراہا۔ ان اکابر میں پاکستان کے پہلے وزیراعظم شہید ملّت لیاقت علی خاں، خواجہ ناظم الدّین، امیر بہاول پور، سردار عبدالرّب نشتر جیسے زعما شامل ہیں۔ سابق مشرقی پاکستان سے وفاقی وزیر فضل الرحمان، مولانا اکرم خاں وغیرہ بطور خاص انجمن کی سرپرستی کرتے رہے۔
پاکستان میں انجمن کی خدمات کا اجمالی جائزہ
(۱) اردو کالجوں کا قیام
جامعہ عثمانیہ حیدرآباد دکن نے اردو کو ہر سطح پر ذریعہ تعلیم بنانے کا کامیاب تجربہ کیا تھا۔انجمن نے پاکستان میں کام شروع کرتے ہی بے سروسامانی اور وسائل کی کمی کے باوجود اس تجربے کو پاکستان میں عام کرنے اور قومی ترقّی کے جذبے سے طے کیا کہ ایک بین الصوبائی یعنی قومی سطح پر ایک اقامتی جامعہ اردو قائم کی جائے۔ ابتدائی مرحلے میں کالج قائم کرنا تھا۔چناں چہ کراچی میں اردو کالج قائم کیا گیا جس میں فنون، سائنس، تجارت اور قانون کی تعلیم اردو میں ہوتی ہے۔ ابتدا میں یہ کالج انجمن ہی کی عمارت میں تھا بعد میں یونیورسٹی روڈ پر ایک موزوں قطع زمین (چوبیس ایکڑ) حاصل کیاگیا۔ کسی قدر سرکاری گرانٹ اور بیشتر عوامی چندے سے ایک وسیع عمارت اور معمل تعمیر ہوئے اور سائنس کالج وہاں منتقل کردیا گیا۔ اس طرح دو کالج ہوگئے۔ تعلیم قومیائی گئی مگر اب ان (وفاقی) اردو فنون اور اردو سائنس کالجوں کو شاندار اداروں کی حیثیت حاصل ہے۔ تعلیم کے قومیائے جانے کے بعد سے یہ ادارے اپنی خصوصی نوعیت کی وجہ سے نہ صرف وفاقی حکومت کے زیرانتظام ہیں بلکہ اردو تدریسی تجربہ کامیاب ہونے کی وجہ سے ایک علاحدہ یونیورسٹی میں تبدیل ہوجانے کے امکانات رکھتے ہیں۔ قومیائے جانے تک ان میں ایم۔اے، ایم ایس۔سی اور ایل ایل ایم تک تدریس اردو میں ہونے لگی تھی۔ اب یہ سلسلہ محکم تر ہوگیا ہے۔
(۲) علمی اصطلاحات کی فرہنگیں
انجمن نے اعلیٰ سطح کی سائنسی تعلیم کے لیے علمی اصطلاحوں کی ضرورت کو محسوس کیا اور فوری طور پر یہ کام شروع کردیا گیا تجارت اور صنعت و حرفت کے حوالے سے بینکاری کی اصطلاحوں کی ایک فرہنگ بھی شائع کردی گئی ہے۔ انجمن کے رجحان ساز اقدامات سے ملک کی مختلف یونیورسٹیوں میں اصطلاحات کے ترجمے کا کام زور و شور سے شروع ہوگیا تھا۔ حال ہی میں انجمن نے بینکاری کی اصطلاحوں کا دوسرا مجموعہ شائع کیا ہے جو دس ہزار سے زیادہ اصطلاحوں پر مبنی ہے۔
(۳) دیگر پاکستانی زبانیں اور انجمن
انجمن اردو اور دیگر پاکستانی (علاقائی) زبانوں کے مابین کوئی تنازعہ نہیں سمجھتی۔ چاروں علاقائی زبانوں کا فروغ سمجھتی ہے علاقائی زبانوں سے اردو میں ترجمے کرائے گئے ہیں اور جاری ہیں۔ اردو سے ان کا مسلسل ارتباط اور باہمی تعاون انجمن کی پالیسی کا بنیادی نکتہ ہے۔
(۴) سرکاری اور غیرسرکاری اداروں کو مشورے اور ان کے ساتھ تعاون
انجمن نے حکومت کے اداروں مثلاً ریلوے کے لیے انگریزی اصطلاحوں کے اردو مترادفات تیار کیے۔ محکمہ ڈاک کے لیے بھی اصطلاحات کے ترجمے کیے گئے۔ عساکر پاکستان کے امتحانات اردو کے نصابوں کی اصطلاح اور ترمیم کی گئی۔ بلدیہ عظمیٰ کراچی کے لیے مختلف دفتری اصطلاحوں کے ترجمے کیے گئے۔ متعدد سرکاری اور تجارتی اداروں سے مشاورتی اشتراک جاری ہے۔
(۵) بابائے اردو یادگاری لیکچر
یہ لیکچر بابائے اردو کی یاد میں ہر سال ہوتا ہے۔ ملک و بیرون ملک کے کسی ممتاز عالم کو کسی خاص موضوع پر اظہار خیال کی دعوت دی جاتی ہے۔ یہ لیکچر کتابی شکل میں شائع بھی کیا جاتا ہے۔ اب تک درج ذیل لیکچر ہوچکے ہیں:
(الف) محمد تقی میر ڈاکٹر جمیل جالبی
(ب) جمالیات اور اردو ادب ڈاکٹر ریاض الحسن
(ج) اردو کا علمی و فکریاتی ادب ڈاکٹر سیّد عبداللہ
(د) جدید اردو تحقیق ڈاکٹر وحید قریشی
(ہ) جدید اردو تنقید ڈاکٹر وزیر آغا
(و) جدید اردو شاعری عزیز حامد مدنی
(ز) ادب میں علامات ڈاکٹر تنویر احمد
(ح) سرسیّد کا تعلیمی منصوبہ ڈاکٹر نورالحسن نقوی
(۶) بزرگ ادیبوں اور شاعروں کی خدمات کا اعتراف... ’’نشانِ سپاس‘‘
انجمن نے اردو اور علاقائی زبانوں کے بزرگ لکھنے والوں کی ادبی خدمات کے اعتراف میں جلسوں کا ایک سلسلہ شروع کررکھا ہے۔ اب تک درج ذیل بزرگ ادیبوں اور شاعروں کے اعزاز میں جلسے ہوچکے ہیں اور انھیں ’’نشانِ سپاس‘‘ پیش کیا جاچکا ہے:
(الف) جناب احمد ندیم قاسمی
(ب) جناب ڈاکٹر غلام مصطفی خاں
(ج) جناب اشرف صبوحی
(د) جناب میرزا ادیب
(ہ) جناب فارغ بخاری
(و) جناب رضا ہمدانی
(ز) جناب ابوالفضل صدیقی
(ح) جناب تابش دہلوی
(ط) جناب پروفیسر ممتاز حسین
(ی) جناب جلیل قدوائی
(ک) جناب امیر حمزہ شنواری (پشتو)
(ل) جناب شریف کنجاہی (پنجابی)
(م) جناب مولانا غلام مصطفی قاسمی (سندھی)
(ن) جناب میر مٹھا خاں مری (بلوچی)
(س) جناب شان الحق حقّی
(ع) جناب سیّد ضمیر جعفری
(ف) جناب ممتاز مفتی
(ق) جناب حمید نسیم
(ر) حکیم محمد سعید
(۷) پاکستان کی مختلف یونیورسٹیوں میں ایم اے اردو اوّل بدرجہ اوّل آنے والے طلبہ کے لیے طلائی تمغے اور نقدانے
انجمن ملک کی مختلف یونیورسٹیوں میں اردو زبان و ادب میں ایم اے کرنے والے طلبہ کی حوصلہ افزائی کے لیے اوّل بدرجہ اوّل آنے والے طالب علم کو طلائی تمغہ اور مبلغ پانچ سو روپے نقد ادا کرتی ہے۔ یہ تمغے اور نقدانے یونیورسٹیوں کے جلسہ تقسیم اسناد میں پیش کیے جاتے ہیں۔
(۸) علمی و ادبی کارنامے (مسلسل) تحریک و تعاونِ عام کے ساتھ)
(۱) مثنوی نظامی دکنی عرف کدم راؤ پدم راؤ کی اشاعت۔ (اردو کی پہلی کتاب)
نظامی دکنی کی اس قدیم مثنوی کا واحد مخطوطہ انجمن کی ملکیت ہے۔ اس مثنوی کا اور کوئی مخطوطہ دنیا کے کسی کتب خانے میں نہیں ہے۔ ممتاز محقّق ڈاکٹر جمیل جالبی نے فاضل اجّل جناب افسر امروہوی مرحوم کی معاونت کے ساتھ بڑی محنت اور دیدہ ریزی سے اُسے پڑھ کر اشاعت کے لیے مرتّب کیا۔ اس مثنوی کی اشاعت سے اُردو ادب کی تاریخ کا ایک باب مکمل ہوا ہے کیوں کہ بابائے اُردو کی آخری تحقیق کے مطابق یہی اُردو کی پہلی باقاعدہ کتاب ثابت ہوتی ہے۔ شائع شدہ کتاب میں ایک طرف اصل متن کا عکس اور دوسری طرف وہی مروّج نستعلیق میں ہے ڈاکٹر جالبی کا توضیحی مقالہ اور جمیل الدّین عالی کا مقدّمہ متن کی تعبیر بھی کرتے ہیں۔
(۲) پاپولر انگریزی اردو ڈکشنری (ساتواں ایڈیشن)
(۳) اسٹوڈنٹس انگریزی اردو ڈکشنری (تیرھواں ایڈیشن)
(۴) اردو انگریزی ڈکشنری (پانچواں ایڈیشن)
(۵) پاکٹ انگریزی اردو ڈکشنری (چوتھا ایڈیشن)
انجمن نے یہ ڈکشنریاں عام قاری، طلبہ اور روزمرّہ کے الفاظ دیکھنے والوں کے لیے خاص طور پر مرتّب کروائی ہیں۔
(۶) مصطلاحاتِ علوم و فنون عربیہ
یہ علوم مشرقی کی اصطلاحوں کی توضیحی لغت ہے۔ علمی کام کرنے والوں اور علوم مشرقی کو سمجھنے کے لیے یہ لغت بہت مفید ہے۔
(۷) تاریخ مسلمانان پاکستان و بھارت (دو جلدیں)
قیامِ پاکستان کے فوراً بعد طلبہ اور عام قارئین کے لیے ایک مستند قومی تاریخ کی ضرورت شدّت سے محسوس کی گئی۔ انجمن نے اس قومی ضرورت کے تحت ممتاز مورّخ ہاشمی فرید آبادی سے یہ تاریخ لکھوائی۔ ہاشمی صاحب نے یہ تاریخ اصل ماخذات سے مرتّب کی ہے۔
(۸) قاموس الکتب (تین جلدیں...)
یونیسکو کے تعاون سے تیار ہونے والی مطبوعہ اردو کتابوں کی یہ توضیحی لغت فن وار مرتّب کی گئی ہے۔ پہلی جلد میں اردو زبان میں شائع ہونے والی تمام مذہبی کتابوں کی فہرست ہے۔ دوسری جلد تاریخیات اور تیسری عمرانیات سے متعلق ہے۔ چوتھی سائنس کی کتابوں کے بارے میں ہے جو زیرطبع ہے۔ پانچویں ادبیات سے تعلق رکھتی ہے اور زیرترتیب ہے۔
(۹) اقوال و امثال
اردو ضرب الامثال، محاورے اور ان کے عربی، فارسی، سندھی، پنجابی اور پشتو مترادفات۔ یوسف بخاری مرحوم کی یہ فرہنگ اردو اور علاقائی زبانوں کے قریبی تعلق کو بھی واضح کرتی ہے۔
(۹) علاقائی ادب کی ترویج بذریعہ اردو
قومی زبان اور علاقائی زبانوں کو ایک دوسرے سے قریب لانے اور ایک دوسرے کے بہتر تفہیم کے لیے انجمن نے یہ کتابیں شائع کی ہیں:
(۱) موج موج مہران
معاصر سندھی شعرا کے سندھی کلام کا منظوم ترجمہ
(۲) پشتو شاعری
پشتو شاعری کا سیرحاصل جائزہ اور ترجمہ
(۳) پنجابی زبان و ادب کی تاریخ
(۴) پنجابی کے پانچ قدیم شاعر
(۵) مثنوی سیف الملوک
میاں محمد بخش کی شہرۂ آفاق مثنوی کی تلخیص اور اردو ترجمہ
(۱۰) انجمن کے علمی اور ادبی منصوبے (بیرونِ پاکستان مراکز اردو سے ممکنہ تعاون کے علاوہ)
(۱) لغت مترادفات و متضادات
تقریباً پچاس ہزار الفاظ کے مترادفات اور متضادات کی یہ لغت ترتیب اوّل پاکر نظرثانی کے مرحلے سے گزر رہی ہے۔ یہ لغت علمی اور ادبی کام کرنے والوں، مترجمین اور اعلیٰ سطح کے طالب علموں کی سہولت کے لیے مرتّب کی گئی ہے۔
(۲) اسٹینڈرڈ انگریزی اردو ڈکشنری میں پندرہ ہزار نئے الفاظ کا اضافہ
اِس مقبول ترین ڈکشنری کے پاکستان میں بھی پانچ ایڈیشن (ڈھائی ہزار اضافی الفاظ کے ساتھ) چھپ چکے ہیں۔
فکری، سائنسی اور تہذیبی ترقّی نے زبانوں کے ذخیرہ الفاظ اور معنویت میں بڑا اضافہ کیا ہے۔ اس صورتِ حال اور جدید تقاضوں کے پیش نظر انگریزی کے پندرہ ہزار نئے الفاظ کا انتخاب کرکے ان کی معنوی نویسی کی گئی ہے۔ ان الفاظ میں پانچ ہزار مشہور امریکی لغت ’’ویبسٹر‘‘ سے لیے گئے ہیں تاکہ امریکی محاورہ بھی ہماری ڈکشنری میں شامل ہوجائے۔ یہ نیا ایڈیشن زیرترتیب و اشاعت ہے۔
(۱۱) علاقائی اور دیگر زبانوں سے تراجم
(۱) پاکستان کی علاقائی زبانوں کے منتخب افسانوں کا ایک ترجمہ تیاری کے مرحلے میں ہے۔
(۲) برطانیہ اور دیگر ممالک میں آباد پاکستانیوں کے بارے میں لکھے جانے والے انگریزی افسانوی مجموعے ’’زبانِ واحد‘‘ کا ترجمہ اشاعت کیاجاچکا ہے۔
(۳) اردو کے ممتاز برطانوی عالم پروفیسر رالف رسل کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ (انگریزی) ترجمہ کرکے شائع کیا جاچکا ہے۔
(۴) فلسطینیوں پر کیے جانے والے ظلم و بربرّیت کی ایک داستان ’’سعید کی پُراسرار زندگی‘‘ شائع ہوچکی ہے اس پُراثر ناول کا ترجمہ ممتاز ادیب جناب انتظار حسین نے کیا ہے۔
(۵) ممتاز سائنس داں ڈارون کی کتاب ’’آغاز انواع‘‘ کا ترجمہ ملک کے ممتاز دانشور سیّد محمد تقی نے کیا تھا۔ اشاعت کے لیے تیار کی جارہی ہے۔
(۱۲) اشاعتی پروگرام
انجمن ہر سال ایک طے شدہ پروگرام کے مطابق تحقیق، تنقید، تاریخ اور ادب سے متعلق متعدد کتابیں شائع کرتی ہے۔ پاکستان میں اپنے قیام سے اس وقت تک انجمن ۶۰۰ سے زائدعلمی، ادبی اور تحقیقی کتابیں شائع کرچکی ہے۔ یہ ایک غیرتجارتی بنیادوں پر نہایت وقیع سلسلہ ہے۔
(۱۳) انجمن کے رسالے
انجمن دو رسالے ماہنامہ ’’قومی زبان‘‘ اور سہ، ماہی’’اردو‘‘ شائع کرتی ہے۔ ’’قومی زبان‘‘ ۱۹۴۹ء سے شائع ہورہا ہے۔ ’’اردو‘‘ اردو کا قدیم ترین علمی اور تحقیقی رسالہ ہے۔
(۱۴) انجمن کے کتب خانے۔ کتب خانۂ خاص، ایک بڑا خزانہ
پاکستان میں اپنے قیام کے بعد انجمن نے محقّقوں، علمی کام کرنے والوں، طلبہ اور عام قارئین کے لیے دو کتب خانے قائم کیے۔ کتب خانۂ خاص ۲۶ ہزار نادر اور کمیاب کتابوں پر مشتمل ہے اور اپنی نوعیت کا واحد کتب خانہ ہے۔ جس میں اردو، فارسی، عربی، انگریزی، جرمن اور فرانسیسی کتابوں کا ذخیرہ ہے۔ اس سے استفادہ کرنے دنیا بھر سے محقّقین اردو آتے ہیں۔ انھیں ضروری سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں۔
کتب خانہ عام۔ عام پڑھنے والوں کے لیے ہے۔ اس میں چودہ ہزار کتابیں ہیں۔
کتب خانۂ خاص و عام سے استفادہ کرنے والوں کی تعداد روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔
(۱۵) انجمن کے مخطوطے
انجمن کے پاس اردو، فارسی اور عربی کے قلمی نسخوں کا بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ ان تمام نسخوں کی توضیحی فہرستیں مرتّب ہوکر شائع ہوچکی ہیں۔ مناسب نگہداشت اور حفاظت کے خیال سے ان قلمی نسخوں کو قومی عجائب خانے میں رکھا گیا ہے۔ مناسب جگہ فراہم ہونے کے بعد انھیں انجمن میں رکھا جائے گا۔
(۱۶) انجمن کی عمارت
انجمن کے قیام کے وقت حکومتِ سندھ نے اس کے لیے ایک متروکہ عمارت الاٹ کردی تھی۔ انجمن کے دفاتر اسی عمارت میں کام کرتے رہے۔ اسی عمارت میں اردو کالج بھی قائم ہوا اور رفتہ رفتہ عمارت کا بڑا حصّہ اس کے تصرّف میں آگیا۔ کالج میں ہنگاموں کی وجہ سے ۱۹۹۱ء میں انجمن کے بعض دفاتر اور کتب خانۂ خاص کو گلشنِ اقبال کی ایک عمارت میں منتقل کیا گیا۔ تاہم شعبۂ فروخت پُرانی عمارت ہی میں ہے۔ بابائے اُردو کی آخری آرام گاہ بھی اسی عمارت میں ہے۔ ہال کی مرمّت اور کمروں میں دوسرے شعبوں پر کام ہو رہا ہے۔
(۱۷) نیا تعمیراتی منصوبہ
انجمن نے اپنے وسائل سے پانچ ہزار گز کا ایک قطع زمین گلستانِ جوہر میں خریدا ہے۔ اس پلاٹ پر موزوں عمارت کی تعمیر کا منصوبہ تیار کیا جارہا ہے مگر اندازہ ہے کہ اس تعمیر پر تقریباً ایک کروڑ روپے لاگت آئے گی۔ انجمن کے وسائل بہت محدود ہیں اس وجہ سے تعمیری منصوبے پر مطلوبہ کام نہیں ہوا۔ یہ منصوبہ اہلِ خیر کے حسن تعاون کا منتظر ہے۔
(۱۸) اقامتی جامعہ اردو کا قیام
انجمن خود قائم کرسکے یا دوسرے کارکنوں/اداروں سے تعاون!
فہرستِ مطبوعات
انجمن کی کتابیں، معیاری کتابیں
انجمنِ ترقّئ اُردو پاکستان کو برصغیر کے قدیم ترین علمی، ادبی اور ثقافتی ادارہ ہونے کا شرف حاصل ہے۔ انجمن کے علمی، ادبی اور ثقافتی کارنامے برصغیر کی قومی تاریخ کا حصّہ ہیں۔ انجمن نے زبان، ادب اور علمی موضوعات پر جو معیاری کتابیں شائع کی ہیں، انھیں فروغِ علم و دانش میں امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ مطبوعات انجمن کی اس فہرست سے یہ اندازہ ہوسکتا ہے کہ انجمن کی مطبوعات کا دائرہ اثر علم و ادب کے تمام گوشوں پر محیط ہے۔
انجمن ترقی اردو پاکستان
ڈی۔۱۵۹، بلاک ۷، گلشن اقبال،
کراچی۔75300
Ph: 021-34973296 - 021-34811406
ڈی۔۱۵۹، بلاک ۷، گلشن اقبال،
کراچی۔75300
Ph: 021-34973296 - 021-34811406
لُغات
اسٹینڈرڈ انگریزی اردو ڈکشنری مرتبہ: بابائے اردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق قیمت:۳۰۰ روپے
اسٹوڈنٹس انگریزی اردو ڈکشنری مرتبہ: بابائے اردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق قیمت:۲۰۰ روپے
اردوانگریزی ڈکشنری مرتبہ: بابائے اردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق قیمت: ۱۵۰ روپے
پاکٹ انگریزی اردو ڈکشنری مرتبہ: بابائے اردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق قیمت :۳۰ روپے
لغت کبیر (جلددوم۔حصہ اول) مولفہ: بابائے اردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق قیمت: ۵۰ روپے
ہندی اردو لغت مرتب:راجیسورراؤاصغراضافہ ومقدمہ: قدرت نقوی قیمت:۲۵۰روپے
فرہنگِ اصطلاحات بینکاری تشکیل، ترجمہ وتدوین:محمد احمد سبزواری/ قیمت: ۲۰۰ روپے
معاونت ومقدمہ: ڈاکٹر جمیل الدین عالی
فرہنگِ اصطلاحات پیشہ وراں مرتبہ:مولوی ظفر الرحمن دہلوی قیمت:فی جلد۲۵ روپے
(دوم تاپنجم)
نوادرالالفاظ سراج الدین علی خاں آرزو/مرتبہ:ڈاکٹر سیدعبداﷲ قیمت:۱۰۰ روپے
جدید مشترک اوزان ڈاکٹر سمیع اﷲ اشرفی قیمت:۷۰ روپے
حوالے کی کتابیں
قاموس الکتب(اول۔سوم) مرتبہ:انجمن ترقی اردو پاکستان قیمت فی جلد:۔۱۰۰ روپے
مخطوطاتِ انجمن ترقی اردو (اردو) مرتبہ:افسرصدیقی قیمت فی جلد: ۲۵ روپے
(اول تا ششم)
مخطوطاتِ انجمن ترقی اردو (فارسی) مرتبہ:سیدسرفراز علی رضوی قیمت:۱۵ روپے
ماخذات مرتبہ:سیدفراز علی رضوی قیمت: جلددوم:۵۰ روپے جلدسوم:۶۶ روپے
تقویم ہجری وعیسوی مرتبہ ابوالنصر محمد خالدی/نظرثانی:مولوی محموداحمدخاں قیمت: ۳۲ روپے
وضع اصطلاحات مولوی وحید الدین سلیم قیمت :۱۱۰ روپے
تحقیق، تنقید اور تاریخ
اردو کی ابتدائی نشوونما میں صوفیائے کرام کا کام بابائے اردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق قیمت :۸۰ روپے
مضامینِ اختر جونا گڑھی قاضی احمدمیاں اخترؔ جونا گڑھی قیمت: ۶۰ روپے
سعادت یارخان رنگین ڈاکٹر صابر علی خاں قیمت: ۱۳۰ روپے
مضامین غلام ربانی غلام ربانی قیمت :۱۰۰ روپے
تاریخِ مسلمانانِ پاکستان وبھارت سید ہاشمی فریدآبادی قیمت:جلد اوّل،۲۵۰ روپے
قیمت: جلد دوم، ۳۰۰ روپے
عبدالغفور نسّاخ ڈاکٹر صدرالحق قیمت: ۳۰ روپے
مقالاتِ گارساں دتاسی(اول ودوم) قیمت: فی جلد۵۰ روپے
اردو تھیٹر (جلدسوم) مؤلفہ:ڈاکٹر عبدالعلیم نامی قیمت :۵۰ روپے
تلخیص مُعلّیٰ مولفہ:کلب حسین نادر/مرتبہ:ڈاکٹر انصاراﷲنظر قیمت: ۱۰ روپے
لُولُوئے ازغیب شولال/مرتبہ: ڈاکٹر محمد ایوب قادری قیمت :۶روپے
مقالات برنیؔ (جلد اول) سیدحسن برنی قیمت: :۵۰ روپے
مقالات برنیؔ (جلد دوم) سیدحسن برنی قیمت::۱۲۰روپے
داستان سحرالبیان مؤلفہ میرغلام عشرت/تدوین و ترتیب ڈاکٹر احمد سجاد قیمت: ۱۶۰روپے
محمد تقی میر ڈاکٹر جمیل جالبی قیمت: ۵۰ روپے
مولانا احسن مارہروی، آثار وافکار ڈاکٹر صابر جلیسری قیمت :۶۰ روپے
تنقید اور جدید اردو تنقید ڈاکٹر وزیرآغا قیمت: ۵۰ روپے
غزل نما مرتبہ: ادا جعفری قیمت:۱۰۰ روپے
خیالات عزیز مولوی عزیز مرزا قیمت :۱۵ روپے
مقامات ناصری میر ناصر علی دہلوی/مرتبہ:انصار ناصری قیمت :۴۵روپے
طنزیات و مقالات میرمحفوظ علی/مرتبہ: محی الدین بدایونی قیمت: ۴۰روپے
بیاضِ مراثی (اشاعت دوم) مرتب: افسر صدیقی امروہوی قیمت :۷۵ روپے
رباعیات عجائباتِ (نیا ایڈیشن) اموجان ولی دہلوی قیمت:۵۰ روپے
اردو قومی یکجہتی اور پاکستان ڈاکٹرفرمان فتح پوری قیمت: ۶۰ روپے
کاروانِ صحافت ڈاکٹرعبدالسلام خورشید قیمت :۵۰روپے
داستانِ دانش ڈاکٹرخلیفہ عبدالحکیم قیمت:۱۲۰روپے
قدیم ادب
نصرتی بابائے اردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق قیمت:۳۰ روپے
دیوان شاہ تراب مرتبہ: ڈاکٹر سلطانہ بخش قیمت:۶۰ روپے
مثنوی نل دمن احمد سراوی/مرتبہ:ڈاکٹر سیدعبداﷲ قیمت: ۲۰ روپے
شعرا کے تذکرے
گلشن ہمیشہ بہار مولفہ :نصراﷲخان خویشگی/مرتبہ: ڈاکٹر اسلم فرخی قیمت :۲۰ روپے
حدیقتہ المرام مولفہ:محمدمہدی واصف مدراسی/مترجم: سخاوت مرزا قیمت:۱۲ روپے
سائنس
ابتدائی جراثیمات مرتبہ:محمد احمدجامی قیمت:۵ روپے
َؓبچوں کی کتابیں
پاکستان کی کہانی (طبع ثانی) بیگم سلمٰی زمن قیمت:۳۰ روپے
بابائے اردو مولوی عبدالحق ڈاکٹر اسلم فرخی قیمت :۱۵ روپے
نصابی کتب
نصابِ اردو (حصہ نثر) قیمت: ۱۵ روپے
انتخابِ جدید(حصہ دوم) مرتبین:ڈاکٹر وزیرآغا، انورسدید، سجادنقوی قیمت:۳۵ روپے
عالمی ادب کے تراجم
کندمالا ون نگاآچاریہ/صمدانی نقوی قیمت:۱۰روپے
قہر عشق شیکسپیئر/ مترجم: شان الحق حقی قیمت :۱۲۰ روپے
گورکی کی آپ بیتی میکسم گورکی/مترجم:ڈاکٹر اخترحسین رائے پوری قیمت:۴۰ روپے
سورج نکل رہا ہے چھاؤیوئی/مترجم: احفاظ الرحمن قیمت :۱۲۰ روپے
ایک وارڈن کی ڈائری مترجم: احفاظ الرحمن قیمت :۱۰۰ روپے
زبانِ واحد میرین مولٹینو قیمت:۱۰۰ روپے
ایران بہ عہد ساسانیان آرتھرکرسٹن سین/مترجم: ڈاکٹر محمد اقبال قیمت: ۲۰۰ روپے
شمسون مبارز (ڈراما) جان ملٹن/مترجم: مجنوں گورکھپوری قیمت: ۱۰ روپے
دریائے لطافت انشاء اﷲ خاں انشا/مترجم:پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی قیمت: ۲۵ روپے
تاریخ الحکما جمال الدین ابوالحسن علی بن یوسف القفطی/مترجم:ڈاکٹرجیلانی برق قیمت :۱۶۵ روپے
چراغ شناسائی مرتبہ: ڈاکٹر محمد حنیف فوق قیمت :۳۵روپے
مشاہیریونان وروما (جلدپنجم) پلوٹارک/سیدہاشمی فریدآبادی قیمت: ۱۱۰روپے
روسی ادب(اوّل) مترجم:محمدمجیب قیمت:۱۲۰ روپے
روسی ادب(دوم) مترجم:محمدمجیب قیمت: ۱۲۰ روپے
سعید کی پراسرار زندگی(عربی ناول) ایملی حبیبی/انتظارحسین قیمت:۱۲۰ روپے
افکارِ عالیہ مترجم:خان رشید/قاضی قیصر السلام قیمت:۱۳۰روپے
ملت اسلامیہ علی نواز میمن/مترجم: صفوت قدوائی قیمت:۲۵۰روپے
پاکستان ایک اشرافی ریاست کی معیشت ڈاکٹر عشرت حسین قیمت :۴۸۰ روپے
اردو ادب کی جستجو رالف رسل/مترجم: سروررِجا قیمت :۳۵۰ روپے
غالب شناسی
غالب کے خطوط(جلد اوّل) مرتبہ: ڈاکٹر خلیق انجم قیمت:۲۴۰روپے
غالب کے خطوط(جلد دوم، سوم، چہارم) مرتبہ: ڈاکٹر خلیق انجم قیمت فی جلد:۱۵۰روپے
غالب کے خطوط(جلدپنجم) مرتبہ: ڈاکٹر خلیق انجم قیمت:۱۰۰روپے
غالب کا سفرکلکتہ اور کلکتے کا ادبی معرکہ ڈاکٹرخلیق انجم قیمت:۳۵۰روپے
غالب درونِ خانہ(اضافہ شدہ ایڈیشن) کالی داس گپتا رضا قیمت:۳۵۰روپے
غالب کی بعض تصانیف کالی داس گپتا رضا قیمت :۱۲۰ روپے
دیوانِ غالب کامل مرتبہ: کالی داس گپتا رضا قیمت :۱۵۰ روپے
غالب ایک مطالعہ(مع ترمیم واضافہ) ممتازحسین قیمت :۱۵۰ روپے
غالب کے چند پہلو ڈاکٹرشمس الرحمن فاروقی قیمت :۱۰۰ روپے
ہنگامۂ دلِ آشوب مقدمہ و حواشی: سید قدرت نقوی قیمت:۱۵ روپے
نقش ہائے رنگ رنگ مترجم ڈاکٹرصابرآفاقی قیمت: ۲۵۰روپے
(غالب کے فارسی قصائدکا اردو ترجمہ)
علاقائی ادب
مرزاغازی بیگ ترخان اور اس کی بزمِ ادب سید حسام الدین راشدی قیمت:۲۵ روپے
ہفت مقالہ مرتبہ: سید حسام الدین راشدی قیمت :۱۰ روپے
پنجابی زبان وادب کی تاریخ مرتبہ :حمیداﷲ شاہ ہاشمی قیمت :۵۰ روپے
مثنوی سیف الملوک میاں محمدبخش/ٗمرتبہ: شفیع عقیل قیمت:۱۵۰ روپے
پنجابی کے پانچ قدیم شاعر شفیع عقیل قیمت:۹۰روپے
مطبوعات
بابائے اردو مولوی عبدالحق حیات اور علمی خدمات شہاب الدین ثاقب قیمت :۴۰ روپے
مطالعہ عبدالحق سید قدرت نقوی قیمت:۱۰۰ روپے
انجمن ترقی اردو کا المیہ بابائے اردو مولوی عبدالحق قیمت:۷۵روپے
خطوط عبدالحق بنام آلِ احمد سرور پروفیسر آل احمد سرور قیمت:۶۰روپے
مکاتیبِ عبدالحق بنام مولانا محوی مرتبہ: مولانا عبدالقیوم دسنوی قیمت :۱۰ روپے
ندائے دوست شباہت علی خان قیمت:۱۷۵ روپے
حرفے چند(جلداوّل) جمیل الدین عالیؔ قیمت: ۱۰۰ روپے
حرفے چند(جلددوم) جمیل الدین عالیؔ قیمت: ۱۲۵ روپے
حرفے چند(جلدسوم) جمیل الدین عالیؔ قیمت: ۱۰۰ روپے
حرفے چند(جلدچہارم) جمیل الدین عالیؔ قیمت:: ۲۵۰روپے
افکارِ حالی مرتبہ: بابائے اردو مولوی عبدالحق قیمت: ۲۰ روپے
پنجاہ سالہ تاریخ انجمن ترقی اردو سیدہاشمی فریدآبادی قیمت :۴۰ روپے
تاریخ انجمن(بابائے اردو کے بعد) شہزاد منظر/ادیب سہیل قیمت:۱۷۵روپے
انجمن ترقی اردوپاکستان کراچی کی مطبوعات توضیحی کتابیات محمداشرف کمال قیمت:۲۵۰روپے
منتشریادیں نورالحسن جعفری قیمت:۱۵۰روپے
اشاریۂ اردو(جلددوم) مرتبہ: مصبا ح العثمان قیمت:۱۰۰روپے
اردو تنقید کا ارتقا ڈاکٹرعبادت بریلوی قیمت :۲۰۰ روپے
فن شاعری (بوطیقا) مترجم:پروفیسر عزیز احمد قیمت :۵۰ روپے
نیاز فتح پوری شخصیت اور فن ڈاکٹر عقیلہ شاہین قیمت :۲۰۰ روپے
انتخاب کلام ناسخ تدوین ومقدمہ: رشید حسن خاں قیمت:۱۲۰روپے
نوادرِ ظفر ترتیب ومقدمہ:شان الحق حقی قیمت:۲۰۰روپے
انتخاب کلام(سودا، میر، انشا،مصحفی، آتش) انتخاب یونس سعید/مرتبین: جمیل الدین عالی، قیمت:۳۲۰روپے
امراؤطارق،ادیب سہیل، شہاب قدوائی
سرسید احمدخاں، حالات وافکار بابائے اردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق قیمت:۷۵ روپے
اطرافِ رشید احمدصدیقی اسلوب احمدانصاری قیمت :۱۰۰ روپے
اردو شعرا کے تذکرے اور تذکرہ نگاری ڈاکٹر فرمان فتح پوری قیمت:۲۵۰ روپے
مثنویاتِ شوق مرتب:رشید حسن خاں قیمت:۲۰۰روپے
مشاعرے کا فاتح (نواب میرزا داغ دہلوی) ڈاکٹر داؤدرہبرؔ قیمت:۱۲۰روپے
اردو کی ادبی تاریخیں ڈاکٹر گیان چند قیمت:۴۵۰روپے
اردو ادب کی تحریکیں (چھٹا ایڈیشن) ڈاکٹر انورسدید قیمت:۳۰۰روپے
اردو کی منظوم داستانیں ڈاکٹرفرمان فتح پوری قیمت:۳۵۰روپے
جدید اردو افسانے کے رجحانات ڈاکٹر سلیم آغا قزلباش قیمت :۳۲۰ روپے
اردوافسانے کے فروغ میں ساقی کا کردار ڈاکٹرسجادحیدرپرویز قیمت:۳۵۰ روپے
شاہد احمد دہلوی حالات وآثار ڈاکٹر سید محمد عارف قیمت:۲۰۰روپے
ممتازحسن احوال وآثار فرزانہ ناہیدگیلانی قیمت: ۲۲۵روپے
جدیداردو شاعری (حصہ دوم) عزیز حامد مدنی قیمت :۱۷۵ روپے
اردو شاعری میں پاکستانی قومیت کا اظہار ڈاکٹر طاہرہ نیر قیمت :۲۵۰ روپے
جدید اردو شاعری میں فطرت نگاری ڈاکٹر ناہید قاسمی قیمت:۴۰۰روپے
پاکستان میں اردو دوہے کی روایت کنول ظہیر قیمت:۲۵۰روپے
ہماری زبان مباحث ومسائل پروفیسر طاہر فاروقی قیمت :۷۵ روپے
اردو نثر میں مزاح نگاری کا سیاسی اور سماجی پس منظر ڈاکٹر رؤف پاریکھ قیمت :۲۵۰ روپے
اردو پاکستان کی قومی زبان میاں بشیر احمد قیمت :۵۰ روپے
مقالات مرزا محمد سعید مرتبہ: شیما مجید قیمت:۱۲۵روپے
اردو ناول کے چند اہم زاویے ڈاکٹرممتاز احمدخان قیمت:۱۶۰روپے
کہانی رانی کیتکی انشااﷲ خان انشاؔ قیمت:۷۰روپے
مجنوں گورکھپوری، حیات وفن ڈاکٹر عبدالستارنیازی قیمت: ۴۰۰ روپے
جدید اور مابعدجدیدتنقید ناصرعباس نیر قیمت: ۳۰۰روپے
متنی تنقید ڈاکٹرخلیق انجم قیمت: ۳۰۰روپے
محمدحسین آزاد (جلداوّل ) ڈاکٹر اسلم فرخّی قیمت:۲۵۰روپے
محمدحسین آزاد(جلددوم) ڈاکٹراسلم فرخّی قیمت:۳۷۵روپے
زخ ش: حیات وشاعری کا تحقیقی اور تنقیدی جائزہ ڈاکٹر فاطمہ حسن قیمت:۲۵۰روپے
عبدالحلیم شرر بہ حیثیت ناول نگار ڈاکٹر علی احمد فاطمی قیمت: ۲۵۰ روپے
اردو صحافت کے ارتقا میں خواتین کا حصہ ڈاکٹر نسیم آرا قیمت:۳۵۰ روپے
بابائے اردو مولوی عبدالحق بطورمرتب ومدون شازیہ عنبرین قیمت: ۳۰۰ روپے
آزادی کے بعد اردو ناول(اضافہ شدہ نیاایڈیشن) ڈاکٹر ممتاز احمدخان قیمت: ۳۰۰ روپے
اردو ادب کے عصری رجحانات کے فروغ میں مجلہ افکار کا کردار ڈاکٹر محمد اشرف کمال قیمت: ۳۵۰ روپے
میں مجلہ افکار کا کردار
رئیس امر وہوی احوال وآثار ڈاکٹر سیدقاسم جلال قیمت: ۲۰۰ روپے
انتخابِ کلامِ میر بابائے اُردو مولوی عبدالحق قیمت: ۱۵۰ روپے
اختر شیرانی ڈاکٹر یونس حسنی قیمت: ۳۵۰ روپے
زیرطبع
مسلم سائنس دان مولف: وقار احمد رضوی
فراق گورکھ پوری مرتبہ: ڈاکٹر فضل حق کامل قریشی
جدید اُردو شاعری (حصّۂ اوّل) عزیر حامد مدنی
فروزاں چہرے خوش بخت شجاعت
اردو ضرب الامثال ثروت سلطانہ
پروفیسر احمدعلی، حیات اور ادبی خدمات ڈاکٹر محمدکامران
اردو کی نثری داستانیں(اضافہ شدہ ایڈیشن) ڈاکٹرگیان چند
قرۃ العین حیدر۔اردوفکشن کے تناظرمیں مرتبہ:انجمن ترقی اردوپاکستان
ریڈیو پاکستان کے پچاس سال مرتبہ:اقبال اسعدی
خ خ خ