بسم اللہ الرحمن الرحیم
تعارف
انجمنِ ترقّئ اُردو، برصغیر کے قدیم ترین ثقافتی اداروں میں ہے۔ اس نے سرسیّد احمد علیہ الرحمتہ کے رفیقِ کار نواب محسن الملک مرحوم کے سایۂ عاطفت میں پرورش پائی۔ جنوبی ایشیا کے مسلم زعما نے اس کی سرپرستی کی۔ سرپرستوں اور معاونوں میں قائد اعظم محمد علی جناح، علامہ اقبال، شہیدِ ملّت لیاقت علی خاں، سردار عبدالرّب نشتر، مولانا حسرت موہانی، مولانا ظفر علی خاں، پیرالہٰی بخش، ڈاکٹر محمد شہید اللہ، سرغلام حسین ہدایت اللہ اور پیرحسّام الدین راشدی جیسے بزرگوں کے نام شامل ہیں۔ ابتداً یہ علی گڑھ میں مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کے ایک شعبے کے طور پر ۱۹۰۳ء میں قائم کی گئی تھی۔
آج علمی مطبوعاتِ انجمن کی تعداد چھ سو سے زیادہ ہے۔ ان مطبوعات میں سے بیشتر اردو زبان و ادب میں لازمی حوالوں کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اسٹینڈرڈ انگریزی اُردو ڈکشنری، قاموس الکتب، اصطلاحاتِ پیشہ وراں، فرہنگِ اصطلاحاتِ بینکاری، مصطلحاتِ علوم عربیہ، مثنوی نظامی دکنی المعروف بہ کدم راؤ پدم راؤ، نکات الشعرا، ذکرمیر، قواعدِ اردو (مرتبہ مولوی عبدالحق)، وضع اصطلاحات، البیرونی، عالمی امہات الکتب کے ترجمے... بے شمار علمی کتابیں انجمن کی جانب سے شائع ہوکر ساری اردو دنیا سے سندِقبول پاچکی ہیں۔
تقسیم سے قبل اردو ہندی تنازعے اور پاکستان میں قومی زبان کے مسئلے پر انجمن نے اردو زبان کے موقف کو ہمیشہ پوری سچّائی اور قُوّت کے ساتھ پیش کیا جو قائد اعظم محمد علی جناح کے موقف کے مطابق تھا۔ انجمن کے یہ کارنامے ہماری قومی تاریخ کا حصّہ ہیں۔ انجمن کے اس کردار پر خود انجمن کی تاریخ کے علاوہ دوسری کئی تصنیفات موجود ہیں اور اس کا ذکر تحریکِ پاکستان کی اہم ترین مُہمّات میں ہر مؤرّخ پاکستان کرتا ہے...
نادر علمی و ادبی خدمات کے علاوہ انجمن نے آزادی کے بعد سے ہی قومی زبان کو اعلیٰ سطحوں پر تدریس کے لیے رائج کرنے میں جو ٹھوس بنیادی کام کیا اس کے عملی نمونے
وفاقی اردو کالج (فنون)
وفاقی اردو کالج (قانون)
وفاقی اردو کالج (سائنس)
کی شکل میں موجود اور فعّال ہیں۔ یہ کالج ۱۹۴۹ء سے ۱۹۷۲ء تک انجمن نے قائم اور تعمیر کیے ان تجربوں کو یونیسکو نے سراہا (سائنس کالج کی نئی عمارت یونیورسٹی روڈ کراچی پر واقع ہے) قانون میں ایل۔ایل۔ایم تک، فنون میں ایم۔اے تک اور کئی سائنسی مضامین میں جامعہ کراچی کے نصاب کے مطابق ایم۔ایس۔سی تک اردو کے ذریعے تدریس کی جاتی ہے...
یہ سب ایک بڑی کل پاکستان اقامتی اردو یونیورسٹی کے منصوبے سے متعلق ہیں جو تعلیم قومیائے جانے کی وجہ سے نامکمل رہ گیا۔ یونیورسٹی روڈ کراچی پر چوبیس ایکڑ زمین لی جاچکی تھی۔ اسی قطعہ زمین کے ایک حصّے پر نیا سائنس کالج تعمیر ہوا۔ اگلا اقدام اقامت گاہیں بنانا تھا۔ جن میں پاکستان کے تمام صوبوں سے بہترین طلبہ جمع کیے جاتے۔ ان طلبہ کے ساتھ رہنے سے قلیل مدّت میں قومی یکجہتی کو فروغ ہوتا اور اردو میں اعلیٰ ترین سطحوں پر تدریس و امتحان کی روایت پھیلتی (جو یوں بھی انجمن کی کوششوں اور اثرات سے دوسرے اداروں کے ذریعے پھیل رہی ہے)
تعلیم قومیائے جانے کے بعد کالجوں اور زمین کی ملکیت کا انتظام انجمن کے ہاتھ میں نہیں رہا۔ لیکن ایک کل پاکستان اقامتی جامعہ اردو کا منصوبہ آج بھی اتنا ہی اہم ہے ۔ اب جب کہ ۱۳؍نومبر۲۰۰۲ء کو ڈاکٹر جمیل الدین عالی کی کوششوں سے جامعہ اُردو کا قیام عمل میں آچکا ہے جس میں ہزاروں کی تعداد میں طلبہ و طالبات اعلیٰ سطح کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
انجمن کے زیر سایہ دو بڑے علمی ادارے قائم ہوئے جو انجمن کے شروع کیے ہوئے کام سرانجام دے رہے ہیں:
(۱) اردو لغت بورڈ، کراچی
(۲) اردو سائنس بورڈ، لاہور
انجمن ہی کی تحریک اور پیہم کوششوں کے نتیجے میں قومی سطح پر نفاذ اردو کے لیے وفاقی اور مختلف صوبائی حکومتوں اور نجی سطح پر جو کام ہو رہا تھا اس سے استفادہ کرتے ہوئے وفاقی حکومت نے ’’مقتدرہ قومی زبان‘‘، اسلام آباد کی تشکیل کی۔ مقتدرہ ایک خالص سرکاری ادارہ ہے جس کا مقصد قومی زبان کو سرکاری دفاتر میں نافذ کرانا ہے اور انجمن ایک غیرسرکاری ادارہ ہے لیکن مقتدرہ قومی زبان کے منصوبے انھی خطوط پر جاری ہیں جو انجمن کے تھے اور ہیں اور اس نے بہت سا کام انجمن ہی کے مرتّب کردہ خطوط اور شروع کیے ہوئے منصوبوں پر کیا ہے۔ انجمن ایک رجسٹرڈ ٹرسٹ ہے۔
انجمن دوسرے تمام علمی اداروں سے تعاون کے ساتھ قومی زبان کے فروغ، دوسری پاکستانی زبانوں سے روابط اور بڑی بین الاقوامی زبانوں سے ترجمہ و استفادہ اور اس طرح قومی زبان کو زیادہ سے زیادہ زرخیز کرنے میں مصروف ہے۔
انجمن کے تمام عہدے دار رضاکارانہ کام کرتے ہیں۔ تنخواہ دار عملے کی تعداد بہت مختصر رہی ہے تنخواہوں پر خرچ بھی بہت کم!
تعارف
انجمنِ ترقّئ اُردو، برصغیر کے قدیم ترین ثقافتی اداروں میں ہے۔ اس نے سرسیّد احمد علیہ الرحمتہ کے رفیقِ کار نواب محسن الملک مرحوم کے سایۂ عاطفت میں پرورش پائی۔ جنوبی ایشیا کے مسلم زعما نے اس کی سرپرستی کی۔ سرپرستوں اور معاونوں میں قائد اعظم محمد علی جناح، علامہ اقبال، شہیدِ ملّت لیاقت علی خاں، سردار عبدالرّب نشتر، مولانا حسرت موہانی، مولانا ظفر علی خاں، پیرالہٰی بخش، ڈاکٹر محمد شہید اللہ، سرغلام حسین ہدایت اللہ اور پیرحسّام الدین راشدی جیسے بزرگوں کے نام شامل ہیں۔ ابتداً یہ علی گڑھ میں مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کے ایک شعبے کے طور پر ۱۹۰۳ء میں قائم کی گئی تھی۔
آج علمی مطبوعاتِ انجمن کی تعداد چھ سو سے زیادہ ہے۔ ان مطبوعات میں سے بیشتر اردو زبان و ادب میں لازمی حوالوں کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اسٹینڈرڈ انگریزی اُردو ڈکشنری، قاموس الکتب، اصطلاحاتِ پیشہ وراں، فرہنگِ اصطلاحاتِ بینکاری، مصطلحاتِ علوم عربیہ، مثنوی نظامی دکنی المعروف بہ کدم راؤ پدم راؤ، نکات الشعرا، ذکرمیر، قواعدِ اردو (مرتبہ مولوی عبدالحق)، وضع اصطلاحات، البیرونی، عالمی امہات الکتب کے ترجمے... بے شمار علمی کتابیں انجمن کی جانب سے شائع ہوکر ساری اردو دنیا سے سندِقبول پاچکی ہیں۔
تقسیم سے قبل اردو ہندی تنازعے اور پاکستان میں قومی زبان کے مسئلے پر انجمن نے اردو زبان کے موقف کو ہمیشہ پوری سچّائی اور قُوّت کے ساتھ پیش کیا جو قائد اعظم محمد علی جناح کے موقف کے مطابق تھا۔ انجمن کے یہ کارنامے ہماری قومی تاریخ کا حصّہ ہیں۔ انجمن کے اس کردار پر خود انجمن کی تاریخ کے علاوہ دوسری کئی تصنیفات موجود ہیں اور اس کا ذکر تحریکِ پاکستان کی اہم ترین مُہمّات میں ہر مؤرّخ پاکستان کرتا ہے...
نادر علمی و ادبی خدمات کے علاوہ انجمن نے آزادی کے بعد سے ہی قومی زبان کو اعلیٰ سطحوں پر تدریس کے لیے رائج کرنے میں جو ٹھوس بنیادی کام کیا اس کے عملی نمونے
وفاقی اردو کالج (فنون)
وفاقی اردو کالج (قانون)
وفاقی اردو کالج (سائنس)
کی شکل میں موجود اور فعّال ہیں۔ یہ کالج ۱۹۴۹ء سے ۱۹۷۲ء تک انجمن نے قائم اور تعمیر کیے ان تجربوں کو یونیسکو نے سراہا (سائنس کالج کی نئی عمارت یونیورسٹی روڈ کراچی پر واقع ہے) قانون میں ایل۔ایل۔ایم تک، فنون میں ایم۔اے تک اور کئی سائنسی مضامین میں جامعہ کراچی کے نصاب کے مطابق ایم۔ایس۔سی تک اردو کے ذریعے تدریس کی جاتی ہے...
یہ سب ایک بڑی کل پاکستان اقامتی اردو یونیورسٹی کے منصوبے سے متعلق ہیں جو تعلیم قومیائے جانے کی وجہ سے نامکمل رہ گیا۔ یونیورسٹی روڈ کراچی پر چوبیس ایکڑ زمین لی جاچکی تھی۔ اسی قطعہ زمین کے ایک حصّے پر نیا سائنس کالج تعمیر ہوا۔ اگلا اقدام اقامت گاہیں بنانا تھا۔ جن میں پاکستان کے تمام صوبوں سے بہترین طلبہ جمع کیے جاتے۔ ان طلبہ کے ساتھ رہنے سے قلیل مدّت میں قومی یکجہتی کو فروغ ہوتا اور اردو میں اعلیٰ ترین سطحوں پر تدریس و امتحان کی روایت پھیلتی (جو یوں بھی انجمن کی کوششوں اور اثرات سے دوسرے اداروں کے ذریعے پھیل رہی ہے)
تعلیم قومیائے جانے کے بعد کالجوں اور زمین کی ملکیت کا انتظام انجمن کے ہاتھ میں نہیں رہا۔ لیکن ایک کل پاکستان اقامتی جامعہ اردو کا منصوبہ آج بھی اتنا ہی اہم ہے ۔ اب جب کہ ۱۳؍نومبر۲۰۰۲ء کو ڈاکٹر جمیل الدین عالی کی کوششوں سے جامعہ اُردو کا قیام عمل میں آچکا ہے جس میں ہزاروں کی تعداد میں طلبہ و طالبات اعلیٰ سطح کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
انجمن کے زیر سایہ دو بڑے علمی ادارے قائم ہوئے جو انجمن کے شروع کیے ہوئے کام سرانجام دے رہے ہیں:
(۱) اردو لغت بورڈ، کراچی
(۲) اردو سائنس بورڈ، لاہور
انجمن ہی کی تحریک اور پیہم کوششوں کے نتیجے میں قومی سطح پر نفاذ اردو کے لیے وفاقی اور مختلف صوبائی حکومتوں اور نجی سطح پر جو کام ہو رہا تھا اس سے استفادہ کرتے ہوئے وفاقی حکومت نے ’’مقتدرہ قومی زبان‘‘، اسلام آباد کی تشکیل کی۔ مقتدرہ ایک خالص سرکاری ادارہ ہے جس کا مقصد قومی زبان کو سرکاری دفاتر میں نافذ کرانا ہے اور انجمن ایک غیرسرکاری ادارہ ہے لیکن مقتدرہ قومی زبان کے منصوبے انھی خطوط پر جاری ہیں جو انجمن کے تھے اور ہیں اور اس نے بہت سا کام انجمن ہی کے مرتّب کردہ خطوط اور شروع کیے ہوئے منصوبوں پر کیا ہے۔ انجمن ایک رجسٹرڈ ٹرسٹ ہے۔
انجمن دوسرے تمام علمی اداروں سے تعاون کے ساتھ قومی زبان کے فروغ، دوسری پاکستانی زبانوں سے روابط اور بڑی بین الاقوامی زبانوں سے ترجمہ و استفادہ اور اس طرح قومی زبان کو زیادہ سے زیادہ زرخیز کرنے میں مصروف ہے۔
انجمن کے تمام عہدے دار رضاکارانہ کام کرتے ہیں۔ تنخواہ دار عملے کی تعداد بہت مختصر رہی ہے تنخواہوں پر خرچ بھی بہت کم!