آزادی سے پہلے انجمن کی مجلسِ عاملہ کے بعض ارکان اور بہی خواہ


علّامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال قائد اعظم محمد علی جناح حسین امام
 مسیح الملک حکیم اجمل خاں نظام دکن میر عثمان علی خان آصف جاہ سابع (بانیانِ پاکستان میں شامل)
مولانا ابوالکلام آزاد شہید ملّت لیاقت علی خاں شعیب قریشی
 سیّد سلیمان ندوی خواجہ ناظم الدین (مشہور تحریکِ پاکستان، وزیر ریاست بھوپال، سفیرپاکستان)
مولانا عبدالماجد دریابادی غلام محمد عبدالرحمان صدیقی
 مولانا حسرت موہانی (سابق گورنر جنرل پاکستان) (بنگال کے مشہور رہنما، مصنّف، مدیر...)
مولانا ظفر علی خاں فیلڈ مارشل محمد ایوب خاں علّامہ حافظ محمود شیرانی
 ڈاکٹر سر ضیاء الدّین (صدارت سے قبل بھی انجمن کے معاون رہے) ممتاز حسن قزلباش
(سائنس داں، شیخ الجامعہ، علی گڑھ) (وزیر اعلیٰ ریاست خیرپور سندھ)
ڈاکٹر عبدالستّار صدیقی پیر حسّام الدین راشدی
(فاضل عربی و انگریزی، مصنّف، مدون، الہٰ آباد) مخدوم زادہ حسن محمود
 چودھری خلیق الزماں (وزیر اعلیٰ ریاست بہاول پور)
میاں ممتاز دولتانہ حاتم علوی
 پیر الٰہی بخش (مشہور کارکن تحریکِ پاکستان، میئر کراچی)
 (وزیر اعلیٰ سندھ) ڈاکٹر رضی الدّین صدیقی
 ڈاکٹر تارا چند (مشہور سائنس داں، شیخ الجامعہ سندھ، مصنّف، محقّق)
 (محقّق، معاشرتی کارکن) سردار عبدالرّب نشتر
 پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی حاجی سر عبداللہ ہارون
(مصنّف، شاعر، محقّق، استاد اردو و فارسی جو بوقت تقسیم ہند انجمن کے ساتھ میاں بشیر احمد
 پاکستان میں قیام کرنے بھی آگئے تھے) (مدیر ’’ہمایوں‘‘، لاہور)
سر اکبر حیدری ڈاکٹر مالک رام
(وزیراعظم ریاست حیدرآباد دکن) جسٹس آنند نرائن مُلّا
 قاضی محمد عیسیٰ (رکن مجلس عاملہ مسلم لیگ)
 



(نئی نسل کے لیے ناموں کی فہرست، جواب اتنے معروف نہیں رہے اور اپنے وقت کے اکابر مشاہیر تھے تعارفی اشارات کردیے گئے ہیں)

فضل الرحمان
 (مشرقی پاکستان کے تحریکِ پاکستان میں حصّہ لینے والے مشہور رہنما،
 پہلی پاکستان کابینہ کے وزیر تجارت پھر وزیر تعلیم)
 مولانا محمد اکرم خاں
 (مشرقی پاکستان کے مشہور رہنما تحریکِ پاکستان کے بڑے کارکن، مصنّف، صحافی)
 بابائے بنگلہ ڈاکٹر محمد شہید اللہ
 (مصنّف، محقّق، عالمِ دین، عربی، سنسکرت، بنگلہ کے استاد، معروف اردو دوست)
 ڈاکٹر سیّد عبداللہ
 مشہور عالم، ادیب، محقّق، صدر شعبہ اردو پنجاب یونیورسٹی، ناظم دائرۃ المعارف پنجاب یونیورسٹی
 پروفیسر حمید احمد خاں
 (مصنّف، استاد انگریزی جامعہ عثمانیہ، شیخ الجامعہ پنجاب اور اردو سائنس بورڈ)
 ممتاز حسن
 (ماہر لسیانیات، محقّق، مصنّف، سیکریٹری وزارتِ خزانہ، منیجنگ ڈائریکٹر نیشنل بینک، صدر اُردو بورڈ)
 میر مٹھا خاں مری
 بلوچی کے عالم
 ڈاکٹر نبی بخش بلوچ
 مصنّف، محقّق، شیخ الجامعہ سندھ، صدر مقتدرہ سندھی زبان
 مولانا غلام مصطفی قاسمی
 (مصنّف، استاد، صدر نشین شاہ ولی اللہ اکادمی، حیدرآباد سندھ)
 





انجمن کے عہدے دار
 
صدر نائب صدر معتمدِاعزازی خازن اعزازی
 سرٹامس آرنلڈ ڈپٹی نذیر احمد مولانا شبلی نعمانی (پاکستان میں)
 نواب عماد الملک بلگرامی خواجہ الطاف حسین حالی نواب صدر یار جنگ احمد داؤد
 سر راس مسعود مولوی ذکاء اللہ مولوی عزیز مرزا حاجی شیخ عبدالرزاق
 سرتیج بہادر سپرو بابائے اردو مولوی عبدالحق ڈاکٹر جمیل جالبی
 (مندرجہ بالا حضرات تقسیم ہند سے پہلے اس عہدے پر فائز رہے) ڈاکٹر محمود حسین مشفق خواجہ
 سر عبدالقادر (مصنّف، استاد، شیخ الجامعہ ڈھاکا و کراچی) سید اظفر رضوی(نائب معتمدومشیرمالیات)
 بابائے اردو مولوی عبدالحق ڈاکٹر معین الحق (جاری)
 اختر حسین (مصنّف، استاد تاریخ) پروفیسر سحرانصاری(نائب معتمدادبی امور)
 (سابق گورنر مغربی پاکستان جو مولوی عبدالحق کی وفات کے بعد نئے دستور اے کے صوفی (جاری)
 انجمن کے تحت صدر رہے) (کمشنر کراچی کے سکریٹری۔ جو مارشل لاء کے دوران بلحاظ منصب نئے دستور
 قدرت اللہ شہاب تک اس منصب پر فائز رہے)
 (اختر حسین صاحب کی وفات کے بعد صدر ہوئے اور انتقال تک صدر رہے) جمیل الدّین عالی
 نور الحسن جعفری (۱۹۶۲ء سے جاری)
 آفتاب احمد خان
 (دورِ صدارت جاری)
 


بسم اللہ الرحمن الرحیم

انجمنِ ترقّئ اُردو پاکستان
 تاریخ
 انجمنِ ترقّئ اُردو کی تاریخ برّصغیر پاک و ہند میں خلوص، لگن، جدّوجہد اور سعی و عمل کی تاریخ ہے۔ سرسیّد احمد خاں کے عہد میں مسلمان ۱۸۵۷ء کی ہزیمت سے سہمے ہوئے تھے۔ ہندوؤں کو بھاری اکثریت کے ساتھ ساتھ فرنگی حکمرانوں کی سرپرستی بھی حاصل تھی۔ چناں چہ انھوں نے اس سے فائدہ اٹھاکر یہ آواز بلند کی کہ عدالتوں کی ساری کارروائی ہندی زبان میں ہونا چاہیے۔ اس نعرے نے ایک تحریک کی شکل اختیار کرلی اور اس سلسلے میں قوّت اور اکثریت کے دباؤ دونوں سے کام لیاگیا۔ سرسیّد کو اس تحریک کے نقصان دہ اثرات کا اندازہ ہوگیا تھا۔ انھوں نے یہ صورتِ حال دیکھ کر اپنے آپ کو صرف مسلمانوں کے قومی کاموں کے لیے وقف کرلیا اور دو قومی نظریے کی ترویج و اشاعت کی۔
 سرسیّد نے اپنی زندگی کے آخری لمحے تک بڑے زور و شور سے اردو زبان کی مدافعت جاری رکھی۔ اُن کے بعد اُن کے لائق جانشینوں نواب محسن الملک اور نواب وقار الملک نے یہ خدمت انجام دی۔سرسیّد نے مسلمانوں کی تعلیمی ترقّی کے لیے ایک ادارہ ’’مسلم ایجوکیشنل کانفرنس‘‘ کے نام سے قائم کیا تھا۔ مسلم ایجوکیشنل کے سالانہ جلسے ہماری قومی اور تعلیمی تاریخ میں اہمیت کے حامل ہیں۔ ترقّئ اردو بھی مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کا ایک مقصد تھا جس کے حوالے سے کام ہوتا رہتا تھا۔ مگر یہ بات شدّت کے ساتھ محسوس کی جا رہی تھی کہ ترقّئ اردو اور اردو کی مدافعت کے لیے ایک ہمہ جہت فعّال اور مستعد ادارے کی ضرورت ہے۔
 ۱۹۰۳ء میں مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کا سالانہ جلسہ دلّی میں منعقد ہوا۔ اس جلسے میں کانفرنس کے مختلف شعبے قائم کیے گئے۔ اِنھیں شعبوں میں ایک شعبہ ترقّئ اردو کا بھی تھا۔ یہی شعبہ’ انجمنِ ترقّئ اُردو‘کی بنیاد تھا۔ درج ذیل حضرات انجمن کے عہدیدار نامزد ہوئے:
صدر پروفیسر ٹامس آرنلڈ (علی گڑھ کالج کے پرنسپل تھے، اس وقت جامعہ نہیں بنی تھی)
نائب صدر شمس العلماء مولوی نذیر احمد
 نائب صدر شمس العلماء مولانا الطاف حسین حالی
 نائب صدر شمس العلماء مولوی ذکاء اللہ
 سیکریٹری شمس العلماء مولانا محمد شبلی نعمانی
 انجمن کا ابتدائی دور بڑی جدّوجہد اور کشمکش کا دور تھا۔ کسی ادارے کو کامیاب اور روایت ساز بنانے کے لیے غیرمعمولی محنت کرنا پڑتی ہے۔ انجمن کے عہدے داروں نے بڑی محنت کی اور انجمن کو ایک حیثیت دی لیکن دو تین برسوں کے وقفے سے یکے بعد دیگرے تین سیکریٹری مقرر ہوئے اس وجہ سے کام کسی حد تک متاثر ہوا مولانا شبلی کو اپنی مصروفیات کی وجہ سے مستعفی ہونا پڑا۔ نواب صدر یار جنگ نے اُن کا کام سنبھالا۔ وہ بھی اپنی دوسری انتظامی مصروفیات کی وجہ سے مستعفی ہوگئے۔ مولوی عزیز مرزا سیکریٹری مقرر ہوئے۔ وہ بہت فعّال اور کارگزار انسان تھے۔ بڑے ذوق و شوق اور محنت سے کام شروع کیا لیکن ۱۹۱۱ء میں اُن کا انتقال ہوگیا اور انجمن ایک مستعد سیکریٹری سے محروم ہوگئی۔
 ۱۹۱۲ء میں ایجوکیشنل کانفرنس کا اجلاس پھر دلّی میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں انجمن کی کارگزاری اور حالات پر بھی غور ہوا ۔ یہ طے ہوا کہ مولوی عبدالحق (اس وقت صدر مہتمم تعلیمات اورنگ آباد) کو سیکریٹری مقرر کیا جائے۔ مولوی صاحب سرسیّد کے تربیت یافتہ تھے محسن الملک کے ساتھ کام کرچکے تھے۔ مولانا حالی کے عقیدت مند اور علمی، ادبی کاموں سے دلچسپی رکھتے تھے۔ مولوی صاحب انجمن کے سیکریٹری مقرر ہوگئے۔ انجمن کو اپنے ساتھ اورنگ آباد لے آئے اور رفتہ رفتہ اس صدی میں اردو زبان و ادب کی ترقّی کی سب سے بڑی انجمن کا سب سے اہم حوالہ بن گئے۔
 مولوی عبدالحق انجمنِ ترقّئ اُردو کے سیکریٹری ہی نہیں مجسّم ترقّی اردو تھے۔ اُن کا سونا جاگنا، اُٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا، پڑھنا لکھنا، آنا جانا، دوستی، تعلقات، روپیہ پیسہ غرض کہ سب کچھ انجمن کے لیے تھا۔ ساری تنخواہ انجمن کی نذر کردیتے (بعد میں پینشن بھی انجمن پر ہی خرچ کرتے رہے) لکھنے پڑھنے سے جو آمدنی ہوتی وہ بھی انجمن کے کھاتے میں جاتی۔ زندہ رہے تو اردو کے لیے اور یہ بھی ریکارڈ پر ہے کہ کراچی کے جناح اسپتال میں بسترمرگ پر تھے مگر لیٹے لیٹے ’’قاموس الکتب‘‘ (جلد اوّل) کا معرکہ آرا مقدمہ لکھ دیا۔
 مولوی عبدالحق نے جنھیں انجمن کے حوالے اور اردو کی خدمت سے خواص و عوام نے ’’بابائے اردو‘‘ کا خطاب دیا انجمن کو غیرمعمولی ترقّی دی۔ اس کی خدمات کا دائرہ وسیع کیا۔ وقت کے جدید تقاضوں کے مطابق علمی اور ادبی منصوبے مرتّب کیے اور ان پر بڑی دل جمعی سے کام کیا انجمن کے کاموں کی ایسی شہرت ہوئی کہ نظام دکن میر عثمان علی خاں نے ایک ذاتی فرمان کے ذریعے سے اس کی سرپرستی منظور کی اور اس کے لیے مستقل امداد جاری کردی۔
 انجمن نے ۱۹۴۷ء تک جو خدمات انجام دیں اُن کا ایک اجمالی خاکہ یہ ہے:

(۱) ہندی اردو تنازع اور انجمن
 برطانوی اقتدار قائم ہونے کے بعد برصغیر کے بیشتر کھلے طور پر متعصب اور بعض متعصب نہ ظاہر ہونے والے ہندو رہنماؤں نے اس بات پر پورا زور صرف کیا تھا کہ دیوناگری رسم الخط الفاظ اور ہندی زبان کو سرکاری حیثیت حاصل ہو جائے اور ہندی کو برّصغیر کی واحد مشترک زبان تسلیم کرلیا جائے۔ ’’اردو کو جو قرآنی حروف میں لکھی جاتی ہے۔‘‘ یک قلم خارج کردیا جائے۔ انڈین نیشنل کانگریس کے بااثر عناصر اور دوسری ہندو جماعتوں نے ہندی کو رواج دینے کی بڑی کوشش کی اور اس سلسلے میں بڑی پیچیدہ، چالاک سیاست سے کام لیا لیکن انجمن اور بابائے اردو کی اَن تھک محنت، حوصلے اور مقابلے کی وجہ سے انھیں کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ انجمن نے ہندی اردو تنازعے میں اردو زبان کی سلامتی اور تحفّظ کے لیے بڑی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ انجمن کے یہ کارنامے تحریکِ پاکستان اور قومی تاریخ کا اہم حصّہ ہیں۔

(۲) اردو زبان کی ترویج و اشاعت۔ مخالفتوں اور مشکلات کا دَور
 انجمن نے ایک مرحلہ وار پروگرام کے تحت جنوبی ایشیا کے اُن علاقوں میں جہاں اردو کا رواج برائے نام تھا، اردو کو رواج دیا۔ اس مقصد کے لیے اسکول اور شبینہ مدارس قائم کیے، تعلیم بالغان کا انتظام کیا، چھوٹا ناگپور کے علاقے میں جو مراکز قائم کیے گئے تھے انھیں بڑی کامیابی ہوئی۔ جن علاقوں کے اسکولوں میں اردو اساتذہ کی کمی تھی وہاں انجمن نے اردو اساتذہ کے تقرّر کا بندوبست کیا، درسی کتابیں شائع کیں، ناقص درسی کتابوں کی درستی کے لیے بھرپور جدّوجہد کی۔ بابائے اردو نے سارے ملک کے متعدد دورے کیے۔ انجمن کے معاونوں اور حامیانِ اردو کا ایک بہت بڑا حلقہ مرتّب کیا جس میں ملک کے تمام مقتدر اہلِ علم شامل تھے۔ بے شمار رضاکاروں نے شہر شہر قریہ قریہ شاخیں اور ذیلی شاخیں کھولیں، باقاعدگی اور تواتر کے ساتھ بڑے چھوٹے مذاکرے، جلسے اور منصوبے منعقد و مرتّب ہونے لگے...
 (۳) اصطلاحاتِ علمیہ اور انگریزی اردو ڈکشنری
 اردو زبان کو ہر سطح پر ذریعہ تعلیم بنانے اور علوم و فنون کے جدید سرمائے کو اردو زبان میں منتقل کرنے کے لیے انجمن نے اصطلاحاتِ علمیہ کے ترجموں کا کام کیا اور ترجموں میں سہولت پیدا کرنے کی غرض سے ایک’ اسٹینڈرڈ انگریزی اردو ڈکشنری‘ مرتّب کی۔ یہ کام بابائے اردو کی سرکردگی میں ماہرین کی ایک جماعت نے انجام دیا۔ انجمن کی یہ ڈکشنری اب تک متعدد بار شائع ہوچکی ہے۔ بعض علوم کی اصطلاحات کی فرہنگیں علاحدہ سے بھی شائع کی گئیں۔ انجمن کے اس کام سے اصطلاحات کے ترجموں کی طرف توجہ عام ہوئی۔
 اسی ذخیرے سے اسّی ہزار اصطلاحات اردو بورڈ (اب اردو سائنس بورڈ لاہور) کو ہدیہ کی گئیں جو اس کے منصوبے میں شامل ہیں۔

(۴) علمی و ادبی کتابوں کے تراجم
 انجمن نے دنیا کی اہم علمی اور ادبی کتابوں کو اردو میں منتقل کرنے کے لیے ایک مرحلہ وار پروگرام کے تحت کام شروع کیا اور ایسی بے شمار کتابوں کے ترجمے شائع کیے۔ جنھیں اُمہات الکتب میں شمار کیا جاتا ہے۔ بعض اہم ترجمے یہ ہیں:
نمبر نام مصنّف
(۱) تاریخ تمدّن (سر ہینری طامس بکل۔ ترجمہ: منشی محمد احد علی)
 (۲) تاریخ ملل قدیم (سینویس۔ ترجمہ: سیّد محمود اعظم فہمی)
 (۳) نفح الطیب (علّامہ مقری۔ ترجمہ: مولوی محمد خلیل الرحمن)
 (۴) نیپولین اعظم (جوزیف ایبٹ۔ ترجمہ: محمد معین الدّین)
 (۵) فلسفہ تعلیم (ہربرٹ اسپینسر۔ ترجمہ: خواجہ غلام الحسنین)
 (۶) فاؤسٹ (گوئٹے۔ ترجمہ: ڈاکٹر عابد حسین)
 (۷) تاریخ ادبیات ایران (پروفیسر ایڈورڈ براؤن۔ ترجمہ: سیّد سجّاد حسین)
 (۸) خطبات گارسین دتاسی (اٹھارویں صدی کا مشہور فرنچ اردو محقّق) ترجمہ: سر راس مسعود، ڈاکٹر یوسف حسین خاں اور ڈاکٹر حمید اللہ
(۹) مقالات گارسین دتاسی (مقدمہ: مولوی عبدالحق)
 (۱۰) شکنتلا (کالی داس۔ ترجمہ: اختر حسین رائے پوری)
 (۱۱) ہماری نفسیات (ای۔اے۔مینڈر۔ ترجمہ: شیدا محمد)
 (۱۲) معمارِ اعظم (ابسن۔ ترجمہ: عزیز احمد)
 (۱۳) بقول زرتشت (نتشے۔ ترجمہ: ڈاکٹر ابوالحسن منصور احمد)
 (۱۴) الف لیلہٰ و لیلہٰ (سات جلدیں۔ ترجمہ: ڈاکٹر ابوالحسن منصور)
 (۱۵) کتاب الہند (البیرونی۔ ترجمہ: سیّد علی اصغر)
 (۱۶) ایران بہ عہد ساسانیان (آرتھر کرسٹن سین۔ ترجمہ: ڈاکٹر محمد اقبال)
 (۱۷) فن شاعری (ارسطو کی بوطیقا۔ ترجمہ: عزیز احمد)
 (۱۸) علم الاقوام (ڈاکٹر بیرن عمر رالف ایرن قیلس۔ ترجمہ ڈاکٹر سیّد عابد حسین)
 (۱۹) مشاہیر یونان و روما (چار جلدیں، پلوٹارک، ترجمہ: ہاشمی فرید آبادی)
 (۲۰) مکالمات افلاطون (افلاطون۔ ترجمہ: ڈاکٹر سیّد عابد حسین)
 (۲۱) جوامع الحکایات و لوامع الروایات (عربی سے ترجمہ: اختر شیرانی)
 (۲۲) طربیہ خداوندی (دانتے کی ڈوائن کامیڈی۔ ترجمہ: عزیز احمد)
 (۲۳) تاریخ الحکما (جمال الدّین ابو الحسن علی بن یوسف القفطی۔ ترجمہ: ڈاکٹر غلام جیلانی برق)

(۵) انجمن کے رسائل
 انجمن نے ۱۹۲۱ء میں جنوبی ایشیا کا وقیع سہ ماہی ’’اردو‘‘ ، ۱۹۲۸ء میں رسالہ ’’سائنس‘‘ اور ۱۹۳۹ء میں اخبار ’’ہماری زبان‘‘ جاری کیا۔ اردو کا مقصد و منشا اردو ادب،اور اعلیٰ تحقیق کو فروغ دینا تھا۔ ’’سائنس‘‘ کے ذریعے سے اردو میں جدید دَور کے سائنسی افکار کی اشاعت ہوئی۔ ’’ہماری زبان‘‘ ’’اردو زبان‘‘ کے بارے میں تازہ ترین خبروں کا مجموعہ ہوتا تھا۔
 (۶) املا کے قاعدے
 انجمن نے اعراب، اوقاف اور املا کے قواعد مرتّب کیے اور اصلاحِ زبان کی کوشش کی۔ یہ ایک بڑا اہم اور کامیاب ترجمان ثابت ہوا۔
 (۷) قدیم کتابوں کی اشاعت
 انجمن نے اردو کی قدیم کتابوں کو جو مخطوطوں کی شکل میں مختلف افراد کے ذاتی اور عام کتب خانوں میں بکھری ہوئی تھیں مرتّب کرکے شائع کیا اور ان پر مستند اہلِ علم سے مقدمے لکھوائے۔ دکن کے قدیم اردو ادیبوں اور شاعروں کو منظرعام پر لانا انجمن کا بہت بڑا عملی کارنامہ ہے۔
 (۸) شعرائے اردو کے تذکروں کی اشاعت
 انجمن نے شعرائے اردو کے قدیم تذکروں کو جنھیں اردو کی ادبی تاریخ کے ابتدائی نقوش کی حیثیت حاصل ہے بڑی کوشش اور تلاش سے شائع کیا اور اردو کی ادبی تاریخ کو مکمل کیا۔
 (۹) اردو زبان کے سلسلے میں انجمن کی تندہی
 انجمن نے اردو کے خلاف اُٹھنے والی ہر تحریک کا پامردی سے مقابلہ کیا اور مخالفین اردو کے عزائم کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔ مسلمانوں میں قومی یک جہتی بذریعہ اردو کی طویل کامیاب تحریک تاریخ کے ریکارڈ پر ہے۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی کتاب ’’اُردو قومی یکجہتی اور پاکستان‘‘ اسی موضوع پر، پوری کہانی سناتی ہے...
۱۹۳۸ء میں انجمن کا دفتر اورنگ آباد سے دلّی منتقل ہوگیا مگر ۱۹۴۷ء کے فسادات میں انجمن کا سارا اثاثہ برباد ہوگیا۔ عمارت پر ایک بیمہ کمپنی نے قبضہ کرلیا۔ انجمن کا نادر اور قیمتی کتب خانہ لُٹ گیا۔ مطبوعات ردّی میں فروخت کردی گئیں اور کام کرنے کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی گئی۔
 دلّی میں انجمن کی تباہی اور بربادی کے بعد بابائے اردو کراچی چلے آئے۔ یہاں ازسرِنو انجمن کے کاموں کا آغاز ہوا۔
 بے سروسامانی کے باوجود انجمن نے پاکستان میں نئے عزم اور حوصلے سے کام شروع کیا۔ مشہور ادیب اور ادیب گر سر شیخ عبدالقادر صدر منتخب ہوئے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کو انجمن کے افتتاح کی دعوت دی گئی۔ قائد اعظم نے یہ دعوت منظور کرلی اور لکھا کہ میں اپریل کے بعد کسی دن بخوشی انجمن کا افتتاح کروں گا لیکن اُن کی مصروفیت اور پھر وفات کی وجہ سے یہ ممکن نہ ہوسکا۔ شہید ملّت نوابزادہ لیاقت علی خاں، سردار عبدالرّب نشتراور دوسرے اکابرین وقت نے انجمن سے تعلق جاری رکھا...
سر شیخ عبدالقادر بھی جلد ہی انتقال فرماگئے۔ اب بابائے اردو انجمن کے صدر منتخب ہوئے اور اپنی وفات تک یہ خدمت انجام دیتے رہے۔ بابائے اردو کے بعد اختر حسین نے صدارت کی ذمے داری قبول کی اور اپنی وفات تک صدر رہے اُن کے بعد قدرت اللہ شہاب صدر منتخب ہوئے، اُن کے انتقال کے بعد جناب نورالحسن جعفری انجمن کے صدررہے اور ان کے انتقال کے بعدجناب آفتاب احمد خان انجمن کے صدر ہیں اور خدمات انجام دے رہے ہیں۔
 پاکستان میں انجمن کے معتمدین میں بھی بڑے نام شامل ہیں۔ ڈاکٹر محمود حسین، ڈاکٹر معین الحق! جمیل الدّین عالی بابائے اردو کی حیات ہی میں رکن منتظمہ تھے۔ ان کے انتقال کے بعد معتمدِاعزازی مقرر ہوئے۔ وہ یہ خدمت تاحال اعزازی طور پر انجام دے رہے ہیں۔
 بے شمار اکابر نے وقتاً فوقتاً انجمن کے دفاتر کا معائنہ کیا۔ اس کے کاموں کا جائزہ لیا اور انجمن کی خدمات کو سراہا۔ ان اکابر میں پاکستان کے پہلے وزیراعظم شہید ملّت لیاقت علی خاں، خواجہ ناظم الدّین، امیر بہاول پور، سردار عبدالرّب نشتر جیسے زعما شامل ہیں۔ سابق مشرقی پاکستان سے وفاقی وزیر فضل الرحمان، مولانا اکرم خاں وغیرہ بطور خاص انجمن کی سرپرستی کرتے رہے۔